کیا پاناما پیپرز کے بعد اگلی نااہلی فارن فنڈنگ کیس میں ہو گی؟


اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کا حتمی فیصلہ 30 روز کے اندر کرنے کے حکم کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کا سامنا سابق وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ کیس کے فیصلے کی صورت میں کرنا پڑا تھا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس میں پٹیشنر اکبر ایس بابر کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے ٹھوس ثبوت الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں سامنے آ چکے ہیں لہذا بحیثیت چیئرمین نہ صرف عمران خان نااہلی کا شکار ہوسکتے ہیں بلکہ ان کی جماعت پر پابندی بھی عائد ہوسکتی ہے۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس 2014 سے زیر التوا ہے اور اکبر ایس بابر کی جانب سے تمام کوششوں کے باوجود عمران خان کے پونے چار سالہ دور اقتدار میں بھی اس کا فیصلہ نہیں ہو پایا تھا۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ عمران خان حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے اس کیس میں تاریخ پر تاریخ حاصل کرتی رہی تاکہ فیصلہ لٹکایا جا سکے۔ تاہم 14 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فارن فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ 30 دن کے اندر اس کیس کا فیصلہ سنا دے۔ 14 اپریل کو اسام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کے تحریر کردہ فیصلے میں پی ٹی آئی کی اکبر ایس بابر کو اس کیس سے الگ کرنے اور اس کا ریکارڈ اکبر ایس بابر کو دینے سے روکنے کی درخواستیں بھی خارج کر دی گئی ہیں۔
اس حوالے سے پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواستیں دائر کی تھیں جنھیں الیکشن کمیشن نے 25 جنوری اور 31 جنوری 2022 کو مسترد کر دیا تھا۔تحریک انصاف نے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا لیکن اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کا حکم نامہ برقرار رکھا ہے۔
الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کی درخواست تحریک انصاف کے بانی رکن اور 2011 تک پارٹی میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے والے عمران خان کے سابق دست راست اکبر ایس بابر نے اپنے وکلا سید احمد حسن شاہ اور بدر اقبال چوہدری کے ذریعے دائر کی تھی۔ اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے سیاسی جماعتوں کے لیے موجود قانون ’پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002‘ کی خلاف ورزی کی لہذا پارٹی چیئرمین عمران اور خلاف ورزیوں کے مرتکب دیگر پارٹی قائدین کیخلاف کارروائی کی جائے۔ درخواست گزار اکبر ایس بابر کی الیکشن کمیشن کو حال ہی میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے 2009 سے 2013 کے درمیان 12 ممالک سے 73 لاکھ امریکی ڈالرز سے زائد رقم اکٹھی کی۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ یہ فنڈنگ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس 2002 کے تحت پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے لیے غیر ملکیوں سے فنڈز حاصل کرنا منع ہے۔
الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نینشل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس ایکٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی یا جن کو نینشل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نے نائیکوپ کارڈ جاری کیا ہے، ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ سیکشن 204 کے سب سیکشن چار کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ تحریکِ انصاف کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام عطیات اوورسیز پاکستانیوں نے باضابطہ طور پر پی ٹی آئی کو دیے اور ان میں کوئی ممنوعہ ذریعہ شامل نہیں ہے۔
اکبر ایس بابر کا دعویٰ ہے کہ ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ اُنھوں نے 2011 میں پارٹی چیئرمین عمران خان کے سامنے اٹھایا تھا اور یہ کہا تھا کہ پارٹی کے ایک اور رکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس کیس کو دیکھے لیکن عمران کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کے بعد وہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے گے کیونکہ انہیں یہ یقین ہوگیا تھا کہ سارے معاملے میں پارٹی چیئرمین خود بھی ملوث ہے۔ واضح رہے کہ جنوری 2022 میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عمران خان کی جماعت نے الیکشن کمیشن سے 31 کروڑ روپے سے زائد کی رقم چھپائی اور اپنے درجنوں اکاؤنٹس ظاہر نہیں کیے گئے جو ایک سنگین جرم ہے اور اس جرم کا مرتکب پارٹی سربراہ نااہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
سکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی کو یورپ اور مشرقِ وسطیٰ سمیت امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔الیکشن کمیشن کے مطابق سکروٹنی کمیٹی کو نیوزی لینڈ سے موصول ہونے والے فنڈز تک رسائی نہیں دی گئی۔ کمیٹی رپورت کے مطابق جب تحریک انصاف سمیت فریقین کی طرف سے مکمل ڈیٹا تک رسائی سے متعلق تعاون نہیں کیا گیا تو پھر کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی اجازت سے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر بینکوں سے پہ ٹی آئی کے 2009 سے 2013 کے بینک ریکارڈز تک رسائی حاصل کی اور یوں یہ رپورٹ مرتب کی گئی جس میں ہوشربا حقائق سامنے آئے۔

Related Articles

Back to top button