نواز شریف ایک بار پھر عدالتی پیشیاں بھگتنے پر مجبور کیوں؟

https://youtu.be/mLHwzIZj41k پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا سیاسی مستقبل ایون فیلڈ اور العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں سزا کیخلاف دائر کردہ اپیلوں کے فیصلے سے مشروط ہے۔ منگل کو اپیلوں کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عمر فاروق نے کہا ہے کہ ’آئندہ سوموار سے دلائل سنیں گے، اگر ضرورت پڑی تو اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر چلا لیں گے۔‘ جس سےلگتا ہے کہ اپیلوں بارے فیصلہ الیکشن سے پہلے سنا دیا جائے گا۔ تاہم مبصرین کے مطابق نواز شریف کے الیکشن میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے سے مشروط ہے اگر اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن سے قبل فیصلہ سنا دیا تو نواز شریف الیکشن کمپین چلائیں گے ورنہ وہ گھر میں آرام فرمائیں گے۔ خیال رہے کہ 2016 میں پاناما لیکس کے بعد نواز شریف کے خاندان سمیت ہزاروں لوگوں کی آف شور کمپنیوں کی تفصیلات سامنے آئیں، پانامہ لیکس کے مطابق لندن کے پوش علاقے’مے فیئر‘ میں واقع ایون فیلڈ فلیٹس نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کی ملکیت ہیں اور ان کمپنیوں کے مالک نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز ہیں۔یہ فلیٹس 1993 سے میاں نواز شریف کے اہل خانہ کے زیر استعمال ہیں جبکہ احتساب عدالت میں جمع کرائے گئے نواز شریف کے جواب کے مطابق ’یہ قطری شاہی خاندان کی ملکیت ہے جہاں انہوں نے 2006 تک رہائش اختیار کیے رکھی۔ چوں کہ یہ قطری شاہی خاندان اور مرحوم میاں محمد شریف کے درمیان زبانی معاہدہ تھا اس لیے اس کے دستاویزات میسر نہیں ہیں۔‘ واضح رہے کہ 2001 میں سعودی عرب میں العزیزیہ سٹیل ملز جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی تھی، نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ ’سٹیل ملز کے قیام اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے جب کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف نے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے تھے۔‘ آٹھ ستمبر2017 کو نیب نے سپریم کورٹ کے حکم پر نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز، فلیگ شپ اور ایون فیلڈ ریفرنسز دائر کیے۔26 ستمبر 2017 کو نوازشریف پہلی بار احتساب عدالت پیش ہوئے اور پھر پیشیوں کا طویل سلسلہ چلا۔ 21 فروری 2018 نوازشریف مسلم لیگ ن کی صدارت کے لیے بھی نااہل ہو گئے۔ 6 جولائی 2018 میں عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں نوازشریف کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر 10 سال قید کی سزا سنائی اور معاونت پر مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کوایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے وقت نواز شریف ملک میں موجود نہیں تھے۔ وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے اگست 2018 میں لندن روانہ ہوئے تھے۔13 جولائی 2018 کو نوازشریف اور مریم نواز کو وطن واپسی پر لاہور ایئرپورٹ سے گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا گیا۔پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات 25 جولائی کو ہوئے تھے اور نواز شریف کو انتخابات کے بعد ضمانت ملی تھی۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے 19 ستمبر 2018 کو سزائیں معطل کرکے تینوں کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔عدالت نے دوران سماعت سوال اٹھایا تھا کہ ’پراسیکیوشن نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا تعین ہی نہیں کیا، ٹرائل کورٹ نے پورے فیصلے میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا ذکر کیے بغیر آمدن سے زائد اثاثوں پر سزا کیسے سنائی؟‘ احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں دسمبر 2018 میں سات سال قید اور جرمانوں کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں بری کر دیا تھا۔نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کو غیر اخلاقی وڈیو اور اس کے باعث بلیک میل ہونے کا معاملہ سامنے آنے پر عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا اور برطرف جج کے بیان حلفی کو نواز شریف کی اپیلوں کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔ العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کیسز میں سزاؤں کے بعد نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کے لیے رجوع کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سال 2019 میں صحت کی بنیاد پر نواز شریف کو حکومت کی طرف سے کوئی اعتراض نہ ہونے پر چار ہفتوں کی ضمانت دی تھی تاکہ وہ اپنا علاج کروا سکیں۔ جس کے بعد نواز شریف اکتوبر 2019 میں علاج کے غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے۔ چار سال گزرنے کے باوجود نواز شریف وطن واپس نہ آئے توعدالت نے عدم حاضری پر 15 ستمبر 2020 کو نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری نکالے۔پیش نہ ہونے پر عدالت نے سات اکتوبر 2020 کو نواز شریف کو مفرور ظاہر کرتے ہوئے اخبارات میں اشتہار چھپوانے کا حکم دیا اور اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی حد تک عدالت نے کیس کی سماعت کی، نیب کے غیر تسلی بخش ثبوتوں کے باعث مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بری کر دیا تھا۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کے مطابق ’مریم نواز بری ہو چکی ہیں تو نواز شریف کا کیس بھی اتنا ہی مضبوط ہے جتنا مریم نواز کا کیس تھا۔‘انہوں نے کہا کہ ’عدالت کو فوراً انہیں ضمانت دے دینی چاہیے۔ کیوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہی کہہ دیا تھا کہ نیب کے کیس میں کوئی بنیاد ہی نہیں تھی۔‘ سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل احسن بھون کے مطابق’اس میں دو رائے نہیں کہ نواز شریف ابھی مجرم ہیں اور ان کے کیسز ختم نہیں ہوئے بلکہ دوبارہ بحال ہوئے ہیں جس کے بعد اس میں اب دلائل ہوں گے اور بظاہر عدالت جب شریک ملزم مریم نواز کو ناکافی شواہد پر بری کر چکی ہے تو وہی گراونڈز نواز شریف کے لیے بھی ہوں گے۔‘ الیکشن کمیشن کے بیان کے مطابق آئندہ عام انتخابات آٹھ فروری 2024 کو ہوں گے۔ اب یہ قانونی سوال اٹھتا ہے کہ نواز شریف ابھی تک سزا یافتہ ہیں وہ عدالت سے بری نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ان کی نااہلی برقرار ہے۔ قانون کے مطابق کوئی بھی سزا یافتہ شخص قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ تاہم نواز شریف کے وکیل امجد پرویز کے مطابق ’کاغذات نامزدگی سے قبل ہم اپیلوں کا فیصلہ کروا لیں گے۔ یہ 2019 کی اپیلیں ہیں اس لیے رواں ماہ عدالت کو فیصلہ کر دینا چاہیے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’بری ہونے کے بعد نواز شریف انتخابات لڑنے کے لیے اہل ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی تھی کیونکہ الیکشن ایکٹ ترمیم کے بعد نااہلی کی مدت پانچ سال ہے جو گزر چکی ہے۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’اہلیت کے لیے کسی فورم پر جانے کی ضرورت ہی نہیں، جیسے ہی ہائی کورٹ فیصلہ دے گی ہم اس کے فوراً بعد کاغذات

کیا تحریک انصاف کا خیبرپختونخوا سے بھی صفایا ہونے والا ہے؟

نامزدگی جمع کروا دیں گے اور اس پر قانونی اعتراض نہیں بنتا۔‘

Related Articles

Back to top button