فوج کے غیر سیاسی ہوجانے کے باوجود کونسا جرنیل سیاسی ہے؟


اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے باوجود عمران خان کی جانب سے فوری الیکشن کے ذریعے دوبارہ حکومت میں آنے کے دعوؤں کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو فوج کی جانب سے اپنے ادارے کو غیر سیاسی کرنے کے اعلان کے باوجود پس پردہ عمران کی سیاسی مدد کر رہے ہیں؟ اپنے دور اقتدار میں پاکستان کو معاشی طور پر تباہ و برباد کربے کے ذمہ دار عمران کو دوبارہ اقتدار میں لانے کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ وہ اپنے فیورٹ جرنیل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو نیا آرمی چیف بنا سکیں۔ یہ وہی فیض ہیں جنہوں نے پہلے آئی ایس آئی میں رہتے ہوئے عمران کو دھاندلی زدہ الیکشن سے برسر اقتدار لانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور بعد میں انکی حکومت چلانے میں بھی مدد کرتے رہے۔ اسی لیے فیض حمید کے بطور کور کمانڈر پشاور تبادلے کے چند مہینوں کے اندر ہی عمران حکومت کا دھڑن تختہ ہو گیا۔

اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد عمران دیوانگی کے عالم میں سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور ملک میں فوری الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان نہ کیا گیا تو وہ اسلام آباد پر دھاوا بول دیں گے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک عمران خان کی یہ دھمکی اس لیے خطرناک ہے کہ ان کے ساتھ چلنے والے والے عمرانڈو اور یوتھیے عقل و فہم پر نہیں بلکہ دل اور جذبات پر چلتے ہیں اور خودکش بمبار کی طرح اپنے کمانڈر کے ہر فیصلے پر بلا چوں چراں عمل کرتے ہیں۔

اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف ماہر قانون بیرسٹر اویس بابر کہتے ہیں کہ میں اکثر سوچتا تھا اس روز کیا ہو گا جب تحریک انصاف کے چاہنے والوں کو فوج یا خان صاحب میں سے ایک کو چننا پڑا؟ میں نے یہی اندازہ لگایا تھا کہ جو بھی ہو وہ فوج ہی کو چنیں گے اور آج تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ لوگوں نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھنے دیا اور ضیاء الحق جیسے آمر کو اپنا مائی باپ بنا لیا۔ تین مرتبہ نواز شریف کو ہٹایا گیا اور تینوں مرتبہ عوام نے فوج کو فوقیت دی۔ لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ عوام کا ایک وسیع پڑھا لکھا طبقہ فوج کی تخلیق یعنی عمران خان کو فوج پر ترجیح دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں نے یہ کیسے سوچ لیا کہ پاک فوج کے علاوہ کوئی اور بھی ان کا مسیحا ہو سکتا ہے۔ بیرسٹر اویس بابر خے بقول اس صورت حال کی ذمہ دار فوج خود ہے۔ سیاست ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اگر یہ ہر کسی کے بس کا کام ہوتا تو آج خان صاحب کے ساتھ ساتھ جاوید میانداد بھی ایک بہت بڑے سیاستدان ہوتے۔ لیکن نہیں! ایک سیاستدان ہونے کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں۔ پیسہ، شہرت اور تعلقات۔ اگر ان تین چیزوں میں سے ایک بھی کم پڑ جائے تو سیاستدان کے برے دن آ جاتے ہیں جیسا کہ چودھری نثارعلی خان کے آئے ہوئے ہیں۔ خان صاحب کے پاس تھی تو صرف شہرت اور وہ بھی ایک کھیل کے میدان کی۔ باقی دونوں چیزیں تو بالکل نہیں تھیں یعنی سیاست کے لیے درکار پیسہ اور طاقتور لوگوں سے دوستی۔ یہ دونوں چیزیں یعنی پیسہ اور تعلقات اسٹیبلشمنٹ نے خود خان صاحب کو فراہم کئے۔

اس فراہمی کی ضرورت تب پیش آئی جب نواز شریف اور بی بی شہید نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور عملی طور پر یہ ارادہ کر لیا کہ ان دونوں میں سے چاہے جس کی بھی حکومت آئے دوسری پارٹی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر حکومت نہیں گرائے گی۔

میثاق جمہوریت ایک نیا آغاز بھی تھا جس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ایک دوسرے کے خلاف کئے گئے سارے معاملات معاف کر دیے۔ یہ وہ وقت تھا جب خان صاحب کو اس پلان کے ساتھ لایا گیا کہ ان کے ذریعے دو جماعتیں نظام توڑا جائے، نواز شریف اور آصف زرداری کی سیاست ختم کی جائے اور خان صاحب کو اپنا بچپن کا شوق بھی پورا کرنے دیا جائے بشرطیکہ وہ ملک ان دونوں پارٹیوں سے بہتر چلائیں اور فوج کی بات بھی مانیں۔

چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے فضا بدل گئی۔ ایک اس وقت کی چلتی پھرتی حکومت کے وزیر خارجہ نے اپنے کئی سالوں کی پارٹی چھوڑ دی اور آتے ہی تحریک انصاف کا نائب چیئرمین لگ گیا۔ جاوید ہاشمی جو کہ ن لیگ کے قابل فخر رہنما تھا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔
جسٹس وجیہہ الدین جیسے برینڈڈ لوگ بھی یکے بعد دیگرے شامل ہونے لگے اور ماحول اس حد تک گرم ہو گیا کہ خان صاحب کو یقین تھا کہ وہ 2013ء کا الیکشن جیتیں گے اور وزیراعظم بھی بنیں گے۔

بیرسٹر اویس سلیم کے بقول تحریک انصاف اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی کاوشیں اپنی جگہ مگر ابھی تحریک انصاف اتنی مضبوط بھی نہ تھی کہ پنجاب میں صوبائی اور وفاقی دونوں سطحوں پر سب کو شکست دے سکتی۔ گویا ہوا یوں کہ خان صاحب جیتے تو مگر صرف اور صرف خیبر پختونخوا میں اور وزیراعظم بن گئے نواز شریف۔
چونکہ خان صاحب نے الیکشن سے بہت پہلے سے ماحول گرم کر رکھا تھا وہ حقیقت میں یہ سمجھنے لگے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور وہ اس شکست کو اور اس حقیقت کو کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے کہ اب اگر وہ وزیراعظم بنے بھی تو ان کو 5 سال انتظار کرنا پڑے گا۔ للہٰذا خان صاحب نے ن لیگ کے خلاف ایک شدت سے بھرپور دھاندلی کا پروپیگنڈا رچایا۔ پینتیس پنکچر، چار حلقے کھولو اور نہ جانے کیا کیا ان کے ہتھیار بنے۔ جب ان چھوٹے موٹے نعروں سے کچھ نہ بنا تو جا کے بیٹھ گئے اسلام آباد کے ڈی چوک میں اور وہاں 126 دن کا قیام کیا۔ اس سب کے دوران ان کو اسٹیبلشمنٹ کا آشیربااد حاصل تھا۔ آج جو آگ خان لگا رہا ہے اس کا ایندھن خود فوج کے چند اہلکاروں نے خان کو بھرپور تعداد میں دیا ہے۔ ناصرف یہ بلکہ اس دھرنے سے اس ملک کی مختلف اشتعال پسند تنظیموں کو راستہ مل گیا کہ اگر ان کو ریاست کی توجہ حاصل کرنی ہو تو وہ بھی اسلام آباد آ کر بیٹھ جائیں۔

اب جبکہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ فوج کے اندر فیض حمید کی زیر قیادت ایک ایسا طبقہ ہے جو خان صاحب کو دوبارہ طاقت سونپنا چاہتا ہے تو اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے بڑی محنت کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کے ریٹائر فوجی افسروں کی ویڈیوز بنا کر جذباتی پیغامات دینے پڑ رہے ہیں کہ پاک فوج میں دو دھڑے ہونا ناممکن ہے وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایسا کوئی طبقہ ہے جو پردوں کے پیچھے خان صاحب کی مدد کر رہا ہے جبکہ ادارہ خان صاحب کے ساتھ مزید نہ چلنے کا فیصلہ کر چکا ہے؟ اگر تو کوئی ایسا طبقہ ہے تو یہ وہی طبقہ ہے جو کئی سالوں سے خان صاحب میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس طبقے میں صرف فوجی شامل نہیں ہیں بلکہ اس میں کئی نامی گرامی صحافی، افسر اور شاید کچھ جج بھی شامل تھے۔ آخر تحریک انصاف بڑے فخر سے اسی لیے تو کہتی ہے کہ عمران سپریم کوٹ سے سرٹیفائیڈ صادق اور امین ہے۔ اب اس طبقے کے لیے خان صاحب کو چھوڑنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ ان کو خان سے پیار بہت ہے بلکہ اس لیے خان صاحب کا خاتمہ ان حواریوں کا بھی خاتمہ ہو گا۔ ان لوگوں نے اپنی پوری پوری زندگی خان صاحب کو دی ہے اور اس شدت سے کہ ان کے لیے اب ممکن نہیں رہا کہ ایک کمپنی چھوڑ کے دوسری میں چلے جائیں۔ اب جبکہ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو اس ملک کی بقا کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ فوج اپنے آپ کو سیاست سے ہمیشہ کے لیے دستبردار کر دے اور یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دے کہ وہ کس کو اپنا مسیحا بنانا چاہتے ہیں۔ ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ حقیقت میں اس سرزمین کا مخلص اور قابل رہنما عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر آپ حسن نثار اور ہارون رشید جیسے رفقا کے ذمے لگائیں گے کہ وہ ہمارے ذہنوں کے ساتھ کھیل کر اور عجیب عجیب قسم کی تاویلیں دے کر ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ بس 22 کروڑ میں صرف ایک ایماندار آدمی ہے تو یہی ہوگا جو ہوا۔ وہی آدمی آ کر ایک دن آپ کو جانور کہے گا۔

Related Articles

Back to top button