بھارت اور پاکستان خفیہ بیک ڈور ڈپلومیسی کا انکشاف

معروف لکھاری اور کئی کتابوں کی مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین خفیہ بیک ڈور ڈپلومیسی جاری ہے لیکن عمران خان کی جانب سے پاکستان کے انڈیا کیساتھ تعلقات کی بحالی کا موقع ضائع کیے جانے کے بعد اب مستقبل قریب میں تعلقات بہتر ہونے کا امکان کا نظر آتا ہے۔

عائشہ صدیقہ نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقریر کے بعد وہ لمحہ جس میں ہم انڈیا کیساتھ تعلقات کو بہتر بنا سکتے تھے، عمران خان کی حکومت نے ضائع کر دیا تھا۔ اب بحالی فی الحال مشکل ہے کیونکہ انڈیا کی نظریں نومبر 2022ء میں پاکستان میں ہونے والی ممکنہ اہم تبدیلی پر لگی ہوئی ہیں۔ نیا دور ٹی وی کے پروگرام ”خبر سے آگے” میں پاک انڈیا تعلقات پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو بیک چینل چل رہا تھا وہ اجیت ڈوول اور جنرل باجوہ کے درمیان تھا۔ اس کے تحت صرف ایک فائدہ حاصل کیا گیا اور وہ لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کے مابین سیز فائر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایل او سی پر فائر بندی کے معاہدے کے بعد سے سرحدوں پر گذشتہ ایک سال سے امن ہے۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ بات اس سے آگے بڑھی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ نے کہا کہ ابھی جو چیز سامنے آئی ہے وہ ٹریک ٹو ہے۔ اس کے تحت سول سوسائٹی، سابق ڈپلومیٹس اور ریٹائرڈ فوجیوں کے درمیان میٹنگز کا اہتمام کیا گیا ہے۔ رواں ماہ ہی بھارت اور پاکستان کے وفود کے درمیان بینکاک میں دو میٹنگز ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک میٹنگ میں پاکستانی صحافی اور سابق جنرل نے بھی شرکت کی جبکہ دوسری طرف جبکہ دوسری میٹنگ ملٹری ٹو ملٹری تھی۔ لیکن ان میٹنگز کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔ انہون نے کہا کہ میری اطلاعات تو یہ ہیں کہ ان ملاقاتوں کے دوران تھوڑی سے خفگی بھی دیکھنے میں آئی۔

عمران کی فراغت پر ‘ویگو ڈالا’ کیوں ٹرینڈ کرنے لگا؟

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرا یہی خیال ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن کی بات چیت کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم کھل کر سامنے آئیں کہ کشمیر کا مسئلہ تو رہے گا لیکن جو دونوں ملکوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں ان کا حل ڈھونڈنے کیلئے آگے چلا جائے۔ ان میں آلودگی، موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی بھی اہم مسائل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ملک مل بیٹھ کر سب سے بڑا ایشو مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔انہوں نے کہا کہ ان دونوں ملاقاتوں میں جو گفتگو ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ آپ کا کشمیر آپ کے پاس جبکہ ہمارا کشمیر ہمارے پاس، چلیں آگے بڑھتے ہیں۔ یکن اس کو توثیق کرنا بغیر کسی سیاسی طور پر بہت ہی مشکل ہے۔ ہندوستانیوں کا کہنا ہے کہ آپ بتائیں کہ ہمارے ساتھ بات کرنے کیلئے راضی بھی ہیں یا نہیں؟ لیکن ہماری طرف سے ایسے اشارے جا رہے ہیں جس سے لگتا نہیں کہ ہم تیار ہوں۔

عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ بھارتی نومبر 2022ء میں پاکستان کے ادارے میں ہونے والی ایک اہم تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ انڈیا پاکستان سے بات چیت بڑھانے کیلئے آمادہ ہے درست خیال نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کسی بھی کمزور سویلین حکومت کے ساتھ بھارت کوئی مذاکرات نہیں کرے گا۔

Related Articles

Back to top button