عمران کا الیکشن کا مطالبہ الیکشن کو دور کیسے کر رہا ہے؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ عمران خان فوری الیکشن کے لیے جتنا دباؤ ڈال رہے ہیں، اسکے نتیجے میں الیکشن اتنا ہی دور ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ حکومت جانتی ہے کہ دبائو میں آ کر الیکشن کروانے سے عمران اور بپھر جائیں گے اور اسے ان کی جیت سمجھا جائے گا، جو الیکشن کے دوران انہیں مومینٹم فراہم کرے گا لہٰذا حکومت اور عمران آخری حد تک جا کر کھیل کا یہ مرحلہ جیتنا چاہتے ہیں، پنجہ آزمائی جاری ہے۔

روزنامہ جنگ کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد کہتے ہیں کہ پہلے عمران خان نے اپنے جلسوں اور پھر لانگ مارچ والے دن تک کامیابی سے حکومت پر دبائو ڈالا، مگر پھر انہیں دھرنے دیے بغیر پلٹنا پڑا، جسے نہ صرف ان کے مخالفین نے ’عظیم الشان پسپائی‘ سے تعبیر کیا، بلکہ ان کے حامیوں نے بھی اس منظر کو حیرت اور صدمے کے ساتھ دیکھا۔ عمران خان میدان سے لوٹتے ہوئے ’میں چھ دن بعد پھر آئوں گا‘ کا اعلان کر گئے، مگر اب تک اس پر بھی عمل نہیں کر سکے۔ پچھلے دو ہفتوں سے پشاور میں پناہ گزین خان صاحب فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ حکومت کو فوری الیکشن کے اعلان پر کیسے مجبور کریں، درحقیقت ڈی چوک میں دھرنے کے لیے صارف کو اب پہلے والی سہولیات میسر نہیں ہیں، کئی نمبر بلاک ہو گئے، کئی اے ٹی ایم مشینیں آئوٹ آف سروس ہو چکی ہیں، اور پھر کئی ٹی وی چینل بھی خان کے جلسوں کی صحیح تعداد بتانے کے لیے بےقرار نظر آ رہے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر خان صاحب سپریم کورٹ کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں تو حیرت کیسی؟

حماد غزنوی کا کہنا ہے کہ کہ دوسری طرف عمران خان اپنی تیز دھار سیاست بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کے ساتھی، خیبر پختون خوا کے وزیرِاعلیٰ محمود خان فرماتے ہیں کہ لانگ مارچ کے اگلے مرحلے میں اب صوبائی حکومت کی فورس بھی استعمال کی جائے گی۔ جی یہ ارشادات عمران خان کے شاگردِ رشید محمود خان کے ہیں، اور بہ ظاہر بہ قائمی ہوش و حواس دیے گئے ہیں، ہم تو مذاق سمجھتے تھے، عمران خان تو واقعی ارطغرل ثانی نکلے، خدا خیر کرے، صدیوں کہ بعد شمال سے حملے کی دھمکی آئی ہے۔۔۔

حماد یاد دلواتے ہیں کہ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے، ہر طرف ایک ڈاکٹرائن کا چرچا تھا جسے دہائیوں کے تجربے کا نچوڑ بتایا جا رہا تھا، جس کی روشنی میں بڑے تدبر کے بعد عمران خان کی دس سالہ حکومت کے منصوبے پر مہرِ توثیق ثبت کی گئی، اور اہلِ حکم نے فرمایا کہ نواز شریف اور زرداری کو بھول جائیے، وہ کردار کہانی کی ضرورت نہیں رہے، انہیں اسکرپٹ سے نکال دیا گیا ہے، ختم شُد۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ وہی کردار کوڑے دان سے نکلے اور مسندِ اقتدار پر فرو کش ہو گئے۔ بھک کرکے اڑ گیا وہ ڈاکٹرائن، اور دھڑام کرکے گر گیا وہ دس سالہ منصوبہ۔ حماد کے بقول اس سے پہلے بھی کئی ایسے ڈاکٹرائن اسی طرح کے عبرت ناک انجام سے دوچار ہو چکے ہیں مگر غلطیوں سے سبق سیکھنا غالباً ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ جب اتحادی حکومت آ رہی تھی تو ہم دہی کھانے میں مشغول تھے، یعنی کون آ رہا ہے کون جا رہا ہے یہ ہمارا مسئلہ نہیں تھا، پھر نئی حکومت کتنی دیر رہتی ہے، اگلے انتخابات کب ہوتے ہیں، یہ سیاسی فیصلے بھی حکومت کو خود کرنا تھے۔ ریٹائرڈ افسروں سے لے کر کچھ حاضر سروس لوگوں تک سبھی کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی، اسی مقصد کے حصول کے لیے کچھ یونیورسٹیوں میں خطاب بھی ہوئے اور سوال جواب کے سیشن بھی۔ لیکن اس ساری مشق کے نتیجہ میں استاد کو شاگردوں نے نئی پٹی پڑھا دی، جوان پیروں کے استاد ٹھہرے، یعنی ’’دل کو جاناں سے حسنؔ سمجھا بجھا کے لائے تھے، دل ہمیں سمجھا بجھا کر سوئے جاناں لے چلا‘۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ پھر ابائوٹ ٹرن لیا گیا اور ’جلد انتخابات‘ کو قومی مسائل کا حل تجویز کیا گیا، چنانچہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑا عمران خان کا یہ مطالبہ نئے چورن کے طور بیچنے نکل پڑا۔ پھر حسنِ اتفاق سے پنجاب کا آئینی و انتظامی ڈھانچہ ڈانواں ڈول ہونے لگا، منصف بھی متحرک ہو گئے اور صدر صاحب نے تو مورچہ سنبھالا ہی ہوا تھا۔ نتیجتاً حکومت منجمد ہو گئی اور معیشت پگھلنے لگی، ایسے میں اتحادیوں نے واضح کر دیا کہ اگر انتخاب آپ کی مرضی کی تاریخ پر ہونے ہیں تو پھر آپ آئی ایم ایف سے بھی خود ہی مذاکرات کریں، خود ہی پیٹرول، بجلی کی قیمت بڑھائیں، ہمیں واپسی کی اجازت دیجیے۔ عمران کا ڈالا ہوا گند اسے لانے والے ہی صاف کریں۔ اتحادی حکومت نے اسٹیبلشمنٹ پر یہ بھی واضح کیا گیا اگر اسے خود اگلے انتخاب کی تاریخ چننے کا اختیار ملتا ہے تو پھر ضروری فیصلے بھی کریں گے اور ان کا سیاسی بوجھ بھی اٹھائیں گے، چنانچہ جواب آیا ’ منظور ہے‘۔ یعنی، دانائوں نے ایک مرتبہ پھر فیصلہ بدلا۔

بقول حماد غزنوی، تو پھر کیا اب یہ سمجھا جائے کہ تمام تر معاملات خوش اسلوبی سے طے پا چکے ہیں اور موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی؟ یا پھر اس سے پہلے جب چاہے گی اپنی پسند سے موزوں وقت کا انتخاب کرکے انتخابات کا اعلان کر دے گی؟ سوال یہ بھی یے ہے کہ کیا فیصلہ ساز قوتیں جو پچھلے چھ ماہ میں کم از کم تین بار اپنا قبلہ تبدیل کر چکی ہیں، اب ثابت قدم ہو جائیں گی؟ حماد کہتے ہیں کہ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ذہانت شرط نہیں ہے۔ فیصلہ ساز حلقے کسی آن بھی حلقۂ فکر سے میدانِ عمل میں آنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، دو ووٹوں پر کھڑی حکومت کو گھر بھیجنا چٹکی بجانے سے زیادہ وقت نہیں مانگتا۔ یعنی اگر آپ اور میں منتشر الدماغ ہیں اور نہیں جانتے کہ اگلا الیکشن کب ہو گا تو خاطر جمع رکھیے، ہماری کشتی میں فیصلہ ساز بھی سوار ہیں، وہ بھی بےیقین ہیں، وہ بھی بےسمت ہیں، وہ بھی ہماری طرح ہی منظر کو غور سے دیکھ رہے ہیں تاکہ کسی فیصلے پر پہنچ سکیں۔ لہٰذا تب تک انتظار کیجیئے۔

Related Articles

Back to top button