پرویز الٰہی کا سرور اور بزدار سے میچ پڑ گیا


پنجاب میں تحریک انصاف اور قاف لیگ کا اتحاد دوبارہ سے خطرے میں نظر آتا ہے جس کی بنیادی وجہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کے وزیراعلیٰ بزدار اور گورنر پنجاب چوہدری سرور کے ساتھ مختلف معاملات پر بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ حکومت اور اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے مابین پنجاب اسمبلی سے پاس کروائے جانے والے استحقاق بل، اور سپیکر کی جانب سے رکن اسمبلی نذیر چوہان کے پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد نہ کرنے کے معاملات پر اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ حالانکہ گورنر اور وزیر اعلی پنجاب ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے لیکن اس مرتبہ یہ دونوں پرویز الہی کے خلاف اکٹھے ہو چکے ہیں۔ ان دونوں کا یہ موقف ہے کہ استحقاق بل کے پاس ہونے سے بیوروکریسی خوفزدہ ہوگئی ہے لہذا اس قانون کو واپس لیا جانا چاہیے۔ دوسری جانب پرویز الہی کا موقف ہے کہ پنجاب کے بیوروکریٹس خود کو منتخب سیاستدانوں سے بھی برا سمجھتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ انکو نیچے لایا جائے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دونوں فریقین اپنے موقف پر قائم ہیں جبکہ اپوزیشن صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لئے سپیکر پنجاب اسمبلی کی بھرپور حمایت کررہی ہے۔
قاف لیگ کی سینئر قیادت کا کہنا ہے کہ اگر پرویز الہی پر استحقاق بل واپس لینے یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو وہ نہ صرف سپیکر شپ سے استعفیٰ دے دیں گے بلکہ حکومتی پارٹی کے ساتھ اتحاد بھی ختم کر دیں گے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار استحقاق بل اورر دیگر اختلافی امور پر سپیکر چودھری پرویز الٰہی کے تحفظات دور کرنے کے لیے ان سے ملاقات کی بارہا کوشش کرچکے ہیں لیکن سپیکر چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے ملاقات کو ٹالا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ جب پنجاب اسمبلی نے پہلی مرتبہ اراکین اسمبلی استحقاق بل پاس کرنے کے بعد گورنر پنجاب کو دستخط کرنے کے لئے بھجوایا تھا تا کہ وہ قانون بن جائے تو انہوں نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ چنانچہ چودھری پرویز الہی نے دوسری مرتبہ یہ بل اسمبلی سے پاس کروا دیا جس کے بعد اسے قانون بنانے کے لئے گورنر پنجاب کے دستخط کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ تاہم اب گورنر اور وزیر اعلی پنجاب دونوں وفاقی حکومت کے ایما پر استحقاق قانون کو واپس دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پنجاب کی طاقتور بیوروکریسی کے تحفظات کو دور کیا جاسکے۔ یہ بل پاس کروانے کے بعد چوہدری پرویز الہی نے ایوان میں ایک سخت تقریر کی تھی جس کے جواب میں گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی ایک سخت بیان دیا تھا جس کے بعد سے دونوں کے مابین معاملات کشیدہ ہیں۔
دوسری جانب حال ہی میں وزیر اعلی پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کے عہدے سے نکالی جانے والی فردوس عاشق اعوان عرف بونگی آنٹی نے بھی تحریک انصاف اور قاف لیگ کے مابین اختلافات کی تصدیق کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہی کو ان کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔ فردوس نے کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کے ذاتی اقدامات کی وجہ سے ان کی جماعت اور مسلم لیگ (ق) کے تعلقات میں پڑنے والی دراڑیں نمایاں ہو چکی ہیں۔
پنجاب میں مخلوط حکومت بنانے والی جماعتوں مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے درمیان تعلقات ایک سال قبل اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنے تھے جب مسلم لیگ(ق) نے حکمران جماعت پر وعدے پورے نہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس دوران دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کی خبریں سامنے آتی رہیں اور رواں سال جون میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ق) کے اراکین قومی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز فراہم کرنے کے مطالبے پر رضامندی ظاہر کردی ہے جس کے بعد دونوں اتحادی جماعتوں کے معاملات طے پا گئے تھے۔
فردوس اعوان نے چند روز۔پہلے خود کو پنجاب اسمبلی میں داخلے سے روکے جانے کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات اب خراب تر ہوتے جا رہے ہیں اور اتحاد خطرے میں ہے۔ 9 اگست کو سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ فردوس عاشق اعوان کو سیکیورٹی اہلکاروں نے صوبائی اسمبلی کے دروازے پر روکا، عہدیداروں نے انہیں مہمانوں کی فہرست دکھائی، جنہیں پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی احسن سلیم بریار کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی جہاں سے ان کا نام ہٹا دیا گیا تھا اور اس کے بعد وہ پنجاب اسمبلی سے باہر چلی گئی تھیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی سابق معاون خصوصی نے کہا کہ کچھ دن قبل میں نے مسلم لیگ (ق) کے نائب صدر کے بیٹے کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی سہولت فراہم کی اور پھر انہوں نے پی پی-38 کا ٹکٹ حاصل کر لیا، اگر کوئی پرویز الٰہی کی پارٹی چھوڑ دیتا ہے، کسی دوسرے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر منتخب ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ دونوں جماعتوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کا واضح ثبوت ہے۔انہوں نے کہا کہ اسپیکر کی ذاتی حرکتوں کی وجہ سے دونوں اتحادی جماعتوں کے تعلقات میں دراڑیں پڑتی نظر آ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، مثلا ایک صحافیوں سے متعلق بل حال ہی میں پیش کیا گیا اور ایک پرائیویٹ ممبرز ڈے پر منظور کیا گیا جس کے بعد صحافیوں نے احتجاج کیا، میں نے بھی آواز اٹھائی کہ یہ حکومت کا نہیں بلکہ ایک پرائیویٹ ممبر کا بل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب یہ بل واپس لینا پڑا تو پرویز الہی ناراض ہو گے۔ فردوس نے کہا کہ اب جبکہ وزیراعظم عمران خان چوہدری پرویز الہی کا آخری بڑا مطالبہ بھی تسلیم کرتے ہوئے ان کے بیٹے مونس الہی کو وفاقی وزیر بنا چکے ہیں تو چوہدری صاحب کو حکومتی اتحاد خطرے میں ڈالنے والی حرکتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

Related Articles

Back to top button