اسمبلی سے استعفوں کے معاملے پرعمران گو مگو کا شکار


سابق وزیراعظم عمران خان اور انکی جماعت کے دیگر اراکین قومی اسمبلی سےاستعفے دینے کے باوجود اپنے فیصلے کے حوالے سے گومگو کا شکار ہیں اور اسی لیے ایک روز وہ اس پر قائم رہنے کا اعلان کرتے ہیں تو دوسرے روز ان پر مشروط نظر ثانی کی بات کرتے ہیں۔ ایسے میں اب ایک بار پھر یہ سوال زیر بحث ہے کہ آیا تحریکِ انصاف اسمبلی میں واپس آئے گی یا نہیں؟

اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے پی ٹی آئی کے استعفوں کی تصدیق کا عمل شروع کرنے کے اعلان کے بعد پچھلے چند روز سے یہ افواہ گرم تھی کہ تحریک انصاف اسمبلی سے استعفے واپس لینے پر غور کررہی ہے اور اس حوالے سے کور کمیٹی میں بحث بھی ہوئی ہے۔ تاہم 31 مئی کو فواد چوہدری نے واضح کیا کہ عمران خان اسمبلی سے استعفوں کے فیصلے پر قائم ہیں لیکن پھر ایک روز بعد ہی یکم جون کو فواد چوہدری نے اپنے سابقہ موقف سے یو ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت فوری الیکشن کا اعلان کردے تو تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی اپنے استعفے واپس لے لیں گے۔ لہٰذا سیاسی حلقوں میں اس سوال کی بازگشت سنی جا سکتی ہے کہ آیا عمران خان قومی اسمبلی میں واپس جائیں گے یا نہیں۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سیاست میں ’حتمی فیصلے‘ کا اصول کار فرما نہیں ہوتا اور اگر ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو ایسے ہی ’اصولی اور حتمی‘ مؤقف پی ٹی آئی چیئرمین کئی مرتبہ اختیار کر چکے ہیں۔ قومی اسمبلی سے استعفوں کی ہی بات کی جائے تو 2014 میں اسلام آباد میں دھرنے کے دوران پی ٹی آئی ارکانِ اسمبلی نے استعفے دیے اور عمران خان نے بارہا یہ مطالبہ دہرایا کہ وہ نواز شریف کا استعفیٰ لیے بغیر اسلام آباد سے جانے والے نہیں۔ تاہم نواز شریف کے خلاف عمران کی تحریک ناکام ہوگئی اور پی ٹی آئی اراکین کو اسمبلی میں واپس جانا پڑا۔ اسکے بعد نواز شریف حکومت نے اپنی مدت بھی پوری کی۔ اس لیے موجودہ صورتحال میں بھی تحریک انصاف کی جانب سے استعفے واپس لینے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران کے لیے یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل ہو گا کیونکہ ان کا یہ مؤقف ہے کہ ’اسمبلی واپس جانے کا مطلب امپورٹڈ حکومت کو تسلیم کرنا ہو گا‘۔جب 2014 میں پی ٹی آئی کی جانب سے استعفے جمع کروائے گئے تو دستمبر 2014 کو اس وقت کے قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے کہا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان کے استعفے اس لیے قبول نہیں کیے کہ شاید کوئی مفاہمت ہو جائے۔ ہر رکن کو بلا کر یہ تصدیق کروں گا کہ مستعفی ہونے میں ان کی اپنی مرضی شامل تھی یا نہیں۔‘

لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی 2014 کی طرح حکومت استعفے منظور نہیں کرنا چاہتی اور پی ٹی آئی واپس اسمبلیوں میں آ سکتی ہے؟

اس حوالے سےبات کرتے ہوئے ماہرِ قانون حامد خان کا کہنا تھا کہ ’ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ابھی تک پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور ہی نہیں ہوئے۔ اگر یہ ارکان چاہیں تو استعفے واپس لے سکتے ہیں اور اسمبلی میں واپس جا سکتے ہیں۔‘ حامد خان کا کہنا تھا کہ ’2014 میں سپیکر نے استعفے کھولے ہی نہیں تھے اور الیکشن کمیشن کو بھی نہیں بھیجے گئے تھے۔ اس طرح پی ٹی آئی واپس اسمبلیوں میں آ گئی اور یہ اب بھی واپس آ سکتی ہے۔‘

تو کیا پی ٹی آئی واپس اسمبلی میں آ سکتی ہے؟ یا استعفوں کا فیصلہ اصولی ہے؟ اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’پارلیمان میں واپسی کا امکان موجود ہے۔ مختلف جگہوں پر بات چیت چل رہی ہے۔ مگر واپسی کا امکان بہت زیادہ بھی نہیں۔‘ سیاسی حلقوں اور مقامی میڈیا پر بھی اس حوالے سے خبریں گردش کرتی رہی ہیں کہ اسمبلی میں واپسی کے حوالے سے پی ٹی آئی منقسم ہے۔

اس ضمن میں سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ ’پارٹی کے اندر مختلف آرا ہو سکتی ہیں۔ تحریکِ انصاف کی پارلیمنٹ میں واپسی کے ابھی کوئی آثار نہیں ہیں۔ پارٹی کی طرف سے مجموعی طور پر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ یہ اسمبلی میں واپس جا سکتی ہے۔‘

یہی سوال جب پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنما اور سابق وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کا یہ اصولی فیصلہ ہے۔ واپسی کی کوئی گنجائش نہیں اور عمران خان کے مطابق واپسی کا مطلب ہو گا کہ امپورٹڈ حکومت کو تسلیم کیا جائے۔‘ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے ایک روز بعد یعنی 10 اپریل کو فواد نے کہا تھا کہ ’وزیرِ اعظم کے انتخاب کے بعد پی ٹی آئی ارکان اسمبلی مستعفی ہو جائیں گے۔ نئے انتخابات کے علاوہ موجودہ سیاسی بحران کا اور کوئی حل نہیں ہے۔‘

اُس روز پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے 95 فیصد لوگ استعفے دینے کے خلاف ہیں۔

لہٰذا اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی میں استعفوں کے معاملے پر تقسیم پائی جاتی ہے اور اس پہلو سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی نے اپوزیشن بینچوں پر نہ بیٹھ کر سارا میدان خالی چھوڑ دیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایوان کے اندر سے حکومت کوئی دباؤ محسوس نہیں کررہی۔ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی سے جب یہ پوچھا گیا کہ استعفے دینے کا فیصلہ پی ٹی آئی کے لیے کتنا اہم حربہ ثابت ہو سکتا ہے؟تو ان کا کہنا تھا کہ ’سیاست میں کوئی راستہ سو فیصد نہ درست ہوتا ہے اور نہ ہی غلط۔ یہ موقع کی مناسبت سے منصوبہ بندی ہوتی ہے جو کبھی درست ثابت ہوتی ہے اور کبھی غلط۔ سیاست میں کام کرنے کے کئی راستے ہیں۔ مکمل طور پر کوئی فیصلہ غلط یا صحیح نہیں ہو سکتا۔‘

مگر پی ٹی آئی کے پاس استعفوں کے ذریعے دباؤ کے علاوہ جلد انتخابات کروانے کا کوئی آپشن ہو سکتا تھا؟ اس سوال کے جواب میں رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا، البتہ عدم اعتماد سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کی جا سکتی تھیں۔ لیکن استعفوں کے ذریعے جلد انتخابات کروانے کا دباؤ پی ٹی آئی نے بدستور رکھا ہوا ہے۔‘

یاد رہے کہ 30 مئی کو سپیکر قومی اسمبلی پرویز اشرف نے استعفوں کی تصدیق کے لیے تحریکِ انصاف کے ارکان کو چھ جون کو طلب کر رکھا ہے۔ سپیکر تصدیق کے لیے ہر رکن اسمبلی کو بلانا چاہتے ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ انھوں نے استعفے دے دیے ہیں اور سپیکر کو اختیار نہیں کہ وہ ان استعفوں کا جائزہ لے۔ سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور محمد دلشاد کے مطابق ’آئین کا آرٹیکل 64 یہ کہتا ہے کہ جب کوئی رکن تحریری طور پر سپیکر کو اپنا استعفیٰ بھیج دے تو فوری منظور ہو جاتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جب قاسم سوری نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور کر کے الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے تھے تو پرویز اشریف کو استعفوں کی تصدیق نہیں کرنی چاہیے کیونکہ قاسم سوری قائم مقام سپیکر تھے اور آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت وہ ایک مکمل سپیکر کے آئینی اختیارات رکھتے تھے۔‘

Related Articles

Back to top button