عمران نے پاکستان دشمن مودی کی زبان کیوں اپنا لی؟


سابق وزیراعظم عمران خان ایک انٹرویو میں اپنے اقتدار سے نکلنے کے نتیجے میں فوج کے تباہ ہو جانے، پاکستان کے تین ٹکڑے ہونے اور پاکستانی نیوکلیئر پروگرام ختم ہونے کی منحوس تر پیش گوئیاں کرنے کے بعد شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی محب وطن پاکستانی ملک کے ٹکڑے ہونے اور فوج کے تباہ ہونے کی بات نہیں کر سکتا کیونکہ یہ زبان ایک بھارتی وزیراعظم کی تو ہو سکتی ہے لیکن کسی سابق پاکستانی وزیر اعظم کی نہیں ہو سکتی۔

یاد رہے کہ عمران خان نے بول ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں متنبہ کیا ہے کہ اگر ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے انکا ساتھ دیتے ہوئے ’درست فیصلے‘ نہ کیے تو فوج تباہ ہو جائے گی، ’ملک کے تین حصے ہو جائیں گے اور نیوکلیئر پروگرام ختم کرنا پڑ جائے گا۔‘

انٹرویو کے دوران عمران خان سے پوچھا گیا کہ اگر ملک کی اسٹیبلشمنٹ ان کا ساتھ نہیں دیتی تو ان کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ اصل میں پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ صحیح فیصلے نہیں کرے گی تو فوج سب سے پہلے تباہ ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ ‘اگر ہم ڈیفالٹ کر جاتے ہیں تو سب سے بڑا ادارہ کون سا ہے جو متاثر ہو گا، وہ ہماری فوج ہے۔

عمران خان کے اس تبصرے پر ان کے سیاسی مخالفین کے علاوہ سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد نے ردعمل دیا ہے اور کہا ہے کہ انھیں بطور سابق وزیر اعظم ایسی غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے گریز کرنا چاہیے تھا۔‘

یاد رہے کہ اس سے پہلے عمران خان پاکستان پر ایٹم بم گرانے کی بات بھی کر چکے ہیں۔ عمران خان کے اس انٹرویو کے دفاع میں سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’عمران نے جائز طور پر ان خطرات کی نشاندہی کی ہے جو معاشی تباہی کی صورت میں پاکستان کو درپیش ہوں گے۔ عمرانڈو صحافی سمیع ابراہیم کے ساتھ انٹرویو کے آغاز میں عمران نے لانگ مارچ کے دوران اپنے کارکنان کی گرفتاریوں کی مذمت کی اور کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ’ہم اطمینان میں تھے، ہم نے سمجھا ہم آرام سے نکل جائیں گے۔ مگر اب سوچنا چاہیے ہمارا مقابلہ مافیا کے ساتھ ہے۔‘ ان سے پوچھا گیا کہ جب وہ وزیر اعظم تھے تو تحریک عدم اعتماد کی شب پارلیمنٹ کے باہر قیدیوں کی وین کھڑی کی گئی اور ’وہ کون تھا؟‘

ان کا جواب تھا کہ ’اگر پھر سے ویسی ہی حکومت ملنی ہوتی تو کبھی قبول نہ کرتا۔ یہ ایک اتحادی حکومت تھی، جن لوگوں نے ہمیں جوائن کیا انھیں ہم جانتے نہیں تھے۔ ہم بہت کمزور تھے۔ اب ایسا ہو تو دوبارہ الیکشن کرا کے اکثریت حاصل کرنا چاہوں گا۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’ہمارے ہاتھ بندھ گئے۔ ہم ہر طرف سے پکڑے گئے۔ یعنی ہم ہر جگہ سے بلیک میل ہوتے تھے۔ پاور پوری طرح ہمارے پاس نہیں تھی۔۔۔ پاکستان میں سب کو پتا ہے کہ پاور کدھر ہے۔ لہٰذا اتحادیوں پر دار و مدار کرنا پڑا۔ ہم سارا وقت ان پر انحصار کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ جن کے پاس پاور ہے وہی ادارے سب کچھ کنٹرول کرتے ہیں جیسے نیب اور عدلیہ۔ انہوں نے کہا کہ جب ذمہ داری اور اختیارات ایک ہی جگہ پر ہوتے ہیں، تب ہی نظام چلتا ہے’۔ جب اینکر نے عمران سے پوچھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ان سے تعاون نہیں کرتی اور ان کے خلاف ہے تو کیا انھیں لگتا ہے کہ وہ حکومت میں واپس نہیں آ سکیں گے؟ عمران نے جواب دیا کہ ’اللہ نے جو کچھ دینا تھا وہ مجھے دے چکا ہوا ہے، میں وزارتِ عظمیٰ پر بھی بیٹھا رہا ساڑھے تین سال۔ اصل میں مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ اگر اس وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ صحیح فیصلے نہیں کرے گی، تو میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں کہ فوج سب سے پہلے تباہ ہو گی۔’ انھوں نے کہا کہ ‘میں آپ کو ترتیب بتا دیتا ہوں۔ یہ جب سے آئے ہیں روپیہ گر رہا ہے، سٹاک مارکیٹ، چیزیں مہنگی۔ ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے پاکستان۔ اگر ہم ڈیفالٹ کر جاتے ہیں تو سب سے بڑا ادارہ کون سا ہے جو متاثر ہو گا، پاکستانی فوج۔ جب فوج ہِٹ ہوگی تو اس کے بعد ہمارے سامنے کیا شرط رکھی جائے گی؟ وہی جو یوکرین کے سامنے رکھی گئی کہ خود کو ڈی نیوکلیئرائز کریں یعنی جوہری ہتھیار ختم کر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ جب وہ چلا گیا تو پھر کیا ہو گا۔ میں آپ کو آج کہتا ہوں کہ پاکستان کے تین حصے ہو جائیں گے۔’

جہاں عمران خان کے سیاسی مخالفین ان کے اس خوفناک بیان کی مذمت کر رہے ہیں وہیں ان کے حامی اس کی وضاحتیں پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ ’کوئی بھی پاکستانی اس ملک کے ٹکڑے کرنے کی بات نہیں کر سکتا، یہ زبان ایک پاکستانی کی نہیں بلکہ مودی کی ہے۔ عمران خان دنیا میں اقتدار ہی سب کچھ نہیں ہوتا، بہادر بنو اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر سیاست کرنا اب سیکھ لو۔’

‘اس ملک کے تین ٹکڑے کرنے کی خواہش ہمارے اور ہماری نسلوں کے جیتے جی پوری نہیں ہو سکتی۔’ ادھر ڈیجیٹل میڈیا پر عمران خان کے مشیر ارسلان خالد کہتے ہیں کہ ’جس جس نے آج خان کے بیان کو سنا بغیر کسی کی خواہش پر نیچ درجے کے پاکستان مخالف تجزیے دیے ہیں، یہ سب صحافت کی توہین کر رہے۔ یہ آرڈر پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کی نہ کوئی ساکھ ہے نہ کوئی انھیں اب سیریس لیتا ہے۔ ان کے ذریعے بیانیہ بنانے کے چکر میں آپ ایکسپوز ہی ہوں گے۔‘

تاہم مظہر عباس کا خیال ہے کہ عمران خان ’خطرناک راستے پر چل پڑے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگر وہ نکالے گئے تو زیادہ خطرناک ہوجائیں گے۔‘ صحافی اجمل جامی نے عام لوگوں سے گزارش کی ہے کہ ’اپنے کسی بھی سیاسی رہنما کو ولی یا پیغمبر کا درجہ نہ دیجیے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اندھی نفرت اور عقیدت میں مبتلا متاثرین سے گزارش ہے کہ رہنما معاشرے کو جوڑا کرتے ہیں، توڑا نہیں کرتے، زخموں پر مرہم رکھتے ہیں نمک نہیں چھڑکتے، ایک سابق وزیر اعظم کو تنبیہ کے انداز میں ایسی گفتگو سے گریز کرنا چاہیے تھا۔‘

دوسری جانب سابق وزیر زرتاج گل اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں کہ عمران خان کسی خطرناک راستے پر نکل پڑے ہیں۔ بلکہ وہ سمجھتی ہیں کہ دراصل ان کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ’نون لیگ کی طرف واضح جھکاؤ رکھنے والے صحافی اور اینکر خود کو تباہ کرنے والے طریقے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اس غالب حقیقت کے خلاف ہیں کہ قوم عمران خان کی مکمل حمایت کرتی ہے۔‘ عمران خان کی بات کا اصل مطلب کیا تھا، یہ تو وہ ہی بہتر بتا سکتے ہیں مگر سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے یہ کہا جائے کہ ’مجھے گھر کی چابیاں دو ورنہ میں پورا گھر جلا دوں گا۔ مریم نواز شریف نے عمران کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’یہ شخص قومی مفاد کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے۔

Related Articles

Back to top button