عمران خان موقع پرست اور احسان فراموش کیوں ہے؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سلیم صافی نے عمران خان کو ایک موقع پرست اور احسان فراموش سیاستدان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو انسان اپنے خاندان اور دوستوں سے وفا نہیں کرتا وہ اپنی قوم اور ملک سے بھی وفا نہیں نبھا سکتا۔ اسی لیے جس ریاستی ادارے نے عمران کی پارٹی کو ایک فین کلب سے اٹھا کر اقتدار تک پہنچایا اور ان کی خاطر بدنامی مول لی، وہ آج اسی ادارے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

عمران لانگ مارچ کے بعد دھرنا دئیے بغیر کیوں بھاگا؟

اپنی تازہ تحریر میں سلیم صافی نے عمران کے ساتھ اپنے اختلافات کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ تو میں کوئی سیاستدان ہوں اور نہ ہی عمران میرا حریف ہے؟ میں ایک صحافی ہوں اور بطور صحافی ہی مروں گا۔ ہھر کیا میرا عمران سے جائیداد یا کاروبار کاجھگڑا ہے؟ ایسا بھی ہر گز نہیں کیونکہ وہ میانوالی کے نیازی ہیں جبکہ میں ایک قبائلی پس منظر کا مزدور ہوں۔ عمران کے محلات بنی گالہ اور لاہور میں ہیں جبکہ میں اسلام آباد میں ایک کرائے کے گھر میں رہتا ہوں۔ صافی کہتے ہیں کہ پھر کیا میری ہمدردی یا وابستگی عمران کی کسی حریف سیاسی جماعت سے ہے؟ ایسا بھی ہر گز نہیں۔ یہ صفحات گواہ ہیں کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی حکومتوں پر سخت ترین تنقید اس عاجز نے کی۔ پشاور میں ایم ایم اے کی حکومت میں سب سے زیادہ زیرعتاب میں رہا۔ اے این پی کی حکومت میں کبھی وزیراعلیٰ ہائوس کے اندر نہیں گیا اور ان کی حکومت مجھے نمبرون مخالف سمجھتی رہی۔ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ فاٹا مرجر کے معاملے پر ڈھائی سال جو جنگ ہوئی اس سے بھی سب واقف ہیں۔

سلیم صافی کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین، پرویز خٹک، ریحام خان اور کئی دیگر لوگ گواہ ہیں کہ انہوں نے مجھے عمران خان کے ساتھ بٹھانے کی کتنی کوشش کی اور میں انکار کرتا رہا۔ میں سب کو یہی جواب دیتا کہ میرا اور ان کا صحافی اور سیاستدان کا تعلق تو ہو سکتا ہے لیکن دوستی نہیں ہوسکتی۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ میری تنقید کا زیادہ رخ عمران کی طرف کیوں رہا اور جواب میں انہوں نے میرے خلاف ہر غیرقانونی اور غیراخلاقی حربہ کیوں استعمال کیا؟۔ آج میں پہلی مرتبہ اس کی وجہ بتانے کی کوشش کررہا ہوں۔

وجہ یہ ہے کہ میرے نزدیک ایک صحافی کی بنیادی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ جو فرد، جو ادارہ یا جو لیڈر جیسا ہے، ویسا قوم کے سامنے لے آئے۔ ہمارا کام حقیقت واضح کرنا ہے اور پھر فیصلہ کرنا قوم کا کام ہے کہ وہ حمایت کرتی ہے یا مخالفت۔ میں نہ نواز شریف کو فرشتہ سمجھتا ہوں، نہ زرداری کو، نہ مولانا فضل الرحمٰن کو اور نہ کسی اور سیاسی رہنما کو۔ لیکن میرے نزدیک وہ جیسے ہیں بڑی حد تک قوم کے سامنے ان کی حقیقت واضح ہے لیکن میری سمجھ کے مطابق عمران خان جیسے تھے، اس سے الٹ انہوں نے قوم کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا۔ میری ڈیوٹی یہ ہے کہ میں نواز شریف، زرداری، مولانا اور عمران کی جو حقیقت ہے وہ قوم کے سامنے لائوں اور پھر فیصلہ قوم پر چھوڑ دوں۔ یوں جس دن عمران خان کی حقیقت اسی طرح قوم کے سامنے آجائے جس طرح نواز، زرداری، مولانا، سراج الحق، اسفندیار ولی اور دیگر لیڈروں کی آئی ہے، میرا عمران خان سے متعلق خصوصی سلوک ختم ہو جائے گا۔ الحمد للّٰہ رفتہ رفتہ ان کی حقیقت واضح ہورہی ہے لیکن میرے نزدیک اب بھی لاکھوں لوگ ان سے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں۔

سلیم صافی بتاتے ہیں کہ گزشتہ دس برسوں میں اس ایشو پر میں بڑے کرب سے گزرا ہوں۔ جب آپ کو کامل یقین ہو کہ سامنے کھڑے شخص نے کالے کپڑے پہنے ہوئے ہیں لیکن ہزاروں لوگ کہہ رہے ہوں کہ نہیں یہ تو سفید رنگ کے ہیں تو اس صورت میں آپ جس کرب سے گزرتے ہیں، میں عمران خان کے معاملے میں اسی کرب سے گزرا۔ کئی لوگ اس بنیاد پر میرے دشمن بن گئے اور مجھ سے یہ تقاضا کرتے رہے کہ اس کالے کو سفید کہوں۔ پھر 2010 سے طاقتور ریاستی اداروں اور شخصیات کا دبائو شروع ہوا کہ میں کالے کو سفید کہوں۔ پیشہ ورانہ لحاظ سے اپنے اس موقف کی میں نے بھاری قیمت ادا کی کیونکہ میں ایک سیلیبرٹی، ایک پاپولسٹ، زیادہ ریٹنگ دینے والے اور سب سے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے شخص کی مخالف صف میں کھڑا تھا۔ انہوں نے بھی میرے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔ جب سے سوشل میڈیا آیا ہے وہ میری ٹرولنگ کرواتا رہا جس میں سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ میری عظیم ماں کو گالیاں دلوائی گئیں۔ پھر جب ان کے ہاتھ حکومت آئی تو انہوں نے ہر طرح سے میرے خلاف حکومتی طاقت استعمال کی لیکن رب ذوالجلال کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے استقامت دی۔ میری خوش قسمتی یا بدقسمتی کہ جب عمران سیاست کے میدان میں آرہے تھے، تب مجھے ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس کے نتیجے میں میں نے کچھ نتائج اخذ کئے۔

مثلا لوگ انہیں سیدھا سادہ اور کھرا انسان سمجھتے رہے لیکن جب وہ سیاست شروع کررہے تھے تومجھے اس وقت اندازہ ہوا کہ وہ انتہائی شاطر اور چالاک انسان ہیں۔ لوگوں کے سامنے شوکت خانم کو بنیاد بنا کر یہ باور کراتے رہے کہ وہ نہایت صاحب دل انسان ہیں لیکن مجھے اس وقت یقین ہوگیا تھا کہ وہ سراپا دماغ ہیں اور ان کے پاس دل نہیں۔ انہوں نے لوگوں کو باور کرایا کہ وہ نہایت غنی اور قناعت پسند ہیں لیکن مجھے اس وقت سے ایمان کی حد تک یقین ہوگیا تھا کہ شہرت، طاقت اور اقتدار ہی ان کی منزل ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو بہادر مشہور کر رکھا ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ بہادر شخص سفاک اور مخالفین کے بارے میں بے رحم نہیں ہوسکتا۔

میری سوچ یہ ہے کہ اگر ایک انسان اپنے خاندان اور اپنے دوستوں کا وفادار نہیں تو آگے جاکر اپنی قوم اور ملک سے بھی وفا نہیں نبھا سکتا۔ کیونکہ انسان وفادار ہوتا ہے یا بے وفا اور میں دیکھتا رہا کہ وہ کسی کے ساتھ وفاداری نہیں نبھاتے۔ ایک اور صفت میں نے ان کے ہاں محسن کشی کی محسوس کی تھی جس کا نظارہ ان دنوں سب کررہے ہیں کہ جس ادارے نے انکی پارٹی کو ایک فین کلب سے اٹھاکر اقتدار تک پہنچایا اور ان کی خاطر ہر طرح کی بدنامی مول لی، وہ آج اس ادارے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔

Related Articles

Back to top button