پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان کی تنخواہیں بند کر دی گئیں


عمران خان کی سابقہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے زیادہ تر اراکین قومی اسمبلی اور وزرا سرکاری گھر اور کاریں حکومت کو واپس کرنے سے انکاری ہیں حالانکہ یہ تمام لوگ پارلیمینٹ سے استعفے دے چکے ہیں، لہذا اب شہباز شریف حکومت نے ان کی تنخواہیں بند کر دی ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم کی ہدایت پر تحریک انصاف کے مستعفی ارکان قومی اسمبلی کو اپریل اور مئی کے کی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان بدستور بڑی ڈھٹائی سے پارلیمنٹ لاجز میں مقیم ہیں اور چوہدری فواد اور پرویز خٹک سمیت کئی سابق وزراء نے ابھی تک سرکاری کوٹھیاں خالی نہیں کیں۔ جبکہ سابق وزرا اور قائمہ کمیٹیوں کے سربراہان کی اکثریت نے سرکاری گاڑیاں بھی ابھی تک واپس نہیں کیں۔ دوسری جانب نئی وفاقی کابینہ کے اراکین مسلسل حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں سرکاری گھر اور گاڑیاں فراہم کی جائیں۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے مستعفی وزراء کو گاڑیاں واپس کرنے اور گھر خالی کرنے کے آخری نوٹسز بھی مل چکے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے سے انکاری ہیں۔ اس کے علاوہ جب سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین کو اپنی استعفوں کی تصدیق کے لیے بلوایا تو عمران خان کی ہدایت پر کوئی بھی ایم این اے سپیکر کے چیمبر میں نہیں پہنچا۔ قانونی مشکل یہ ہے کہ جب تک استعفے دینے والا رکن اسمبلی ذاتی طور پر سپیکر کے چیمبر میں پیش ہوکر اپنے استعفے کی تصدیق نہ کرے اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی والے اپنے استعفوں کی تصدیق اس لیے نہیں کر رہے کیونکہ انہیں تنخواہیں اور مراعات ملنے کا لالچ یے۔ چنانچہ اب وزیر اعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین اسمبلی کی تنخواہیں بند کر دی ہیں۔

اردو نیوز کی ائک رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے حکام نے بتایا ہے کہ ’تحریک انصاف کے مستعفی ارکان کو اپریل کے اختتام پر 11 روز کی تنخواہ اور اس دوران ہونے والے قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کا معاوضہ ادا کر دیا گیا تھا۔‘ انہوں نے بتایا کہ مستعفی اراکین کو اپریل کے باقی 20 دن اور مئی کے مہینے کی تنخواہ ادا نہیں کی گئی جبکہ اسمبلی اجلاسوں اور قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں کا معاوضہ ویسے بھی شرکت سے مشروط ہے لہذا وہ اس کے حقدار تھے ہی نہیں۔‘ حکام نے بتایا ہے کہ اگر مستعفی ارکان اپنے استعفے واپس لے لیتے ہیں یا سپیکر کی جانب سے ان کے استعفے مسترد کر دیے جاتے ہیں تو انہیں مئی کی تنخواہ بھی ادا کر دی جائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ کے حکام کا کہنا تھا کہ ابھی تک تحریک انصاف کے ارکان ان تمام مراعات کے حقدار ہیں جو ایک رکن قومی اسمبلی کو قانون کے تحت حاصل ہیں، بالخصوص ٹریول واؤچرز اور دیگر سفری اخراجات جو انہیں ایڈوانس میں ادا کر دیے گئے تھے۔ حکام نے بتایا کہ تحریک انصاف کے 15 سے زائد ارکان قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین تھے جو قانون کے مطابق ابھی تک اپنے عہدوں پر موجود ہیں۔ ان میں سے آٹھ نے سرکاری گاڑیاں واپس کر دی ہیں جبکہ باقیوں نے گاڑیاں اور ڈرائیور بھی واپس نہیں کیے اور وہ اس گاڑی کو ملنے والا فیول بھی استعمال کر رہے ہیں۔ حکام کے بقول قائمہ کمیٹیوں کے ان چیئرمینوں نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اپنے دفتروں میں جا کر کوئی سرکاری کام انجام نہیں دیا۔اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی نے بتایا کہ ’ابھی تک تحریک انصاف کے کسی رکن نے پارلیمنٹ لاجز میں الاٹ شدہ رہائش گاہیں خالی نہیں کیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’چونکہ سپیکر قومی اسمبلی نے ان ارکان کےٍ استعفوں کی فائلیں دوبارہ اوپن کی ہیں اس لیے انہیں مستعفی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے سپیکر آفس کی جانب سے انھیں کسی قسم کا نوٹس بھی جاری نہیں کیا گیا۔‘

ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی نے بتایا کہ لہ ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کا عمل شروع  ہونے اور پورا پورا دن سپیکر کی جانب سے اپنے چیمبر میں انتظار کرنے کے باوجود مستعفی ارکان اپنے استعفوں کی تصدیق کے لیے نہیں آ رہے۔ انہوں نے کہا کہ مستعفی ارکان کو چاہیے کہ وہ آئیں، استعفوں کی تصدیق کریں اور سرکاری رہائش گاہیں اور دیگر مراعات سے دستبردار ہو جائیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ہے کہ ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اکاؤنٹس میں بھیجتا ہے۔ جب ارکان مستعفی ہو چکے ہیں تو سیکرٹریٹ کو ان کی تنخواہیں ٹرانسفر نہیں کرنی چاہییں۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح اگر قواعد میں مستعفی ہونے کے بعد جتنی مدت تک رہائش گاہ اور دیگر مراعات کے استعمال کی اجازت ہے، اگر ارکان اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں تو انہیں اپنی رہائش کے لیے متبادل انتظام کر لینا چاہیے۔

خیال رہے کہ تحریک انصاف کے ارکان نے 2014 کے دھرنے کے دوران جب استعفے دیے تھے تو تب بھی کچھ عرصے بعد انہیں تین تین ماہ کی تنخواہیں ادا کی گئی تھیں۔جب تنقید ہوئی کہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیے بغیر تنخواہیں وصول کر لی ہیں تو ارکان کی اکثریت نے اپنی تنخواہیں شوکت خانم ہسپتال کو بطور عطیہ جمع کرا دی تھیں۔ قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق کوئی بھی رکن اسمبلی اس وقت تک ایوان کا حصہ اور مراعات کا حقدار ہوتا ہے جب تک سپیکر اس کا استعفیٰ منظور کر کے نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن کو نہیں بھیج دیتا۔جس تاریخ سے سپیکر متعلقہ رکن یا اراکین کا استعفیٰ منظور کریں گے، اس کے بعد اور استعفیٰ منظور ہونے کی تاریخ کے درمیانی عرصے میں ارکان کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جاتی۔خیال رہے کہ اس وقت ایک رکن قومی اسمبلی کو تنخواہ کی مد میں ایک لاکھ 68 ہزار روپے ملتے ہیں جبکہ قومی اسمبلی اور کمیٹی اجلاسوں میں شرکت سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد کا سفری الاؤنس الگ سے ہوتا ہے۔

Related Articles

Back to top button