اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن کرائے تو تباہی کی ذمہ دار خود ہو گی

معروف صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے خبردار کیا ہے کہ اگر طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے دباؤ کے سامنے جھکتے ہوئے پی ڈی ایم حکومت کو اکتوبر 2023 تک کارکردگی دکھانے کی مہلت نہ دی اور اس سے پہلے الیکشن کروا دیے تو اسکے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور بربادی کا الزام اس کے اپنے سر پر ہی آئے گا۔

عمران کا احتساب سے بچنے کے لئے جنرل باجوہ پر دباؤ

فرائیڈے ٹائمز کے لئے اپنے تازہ ایڈیٹوریل میں نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ مثالی طور پر ایک سالانہ بجٹ معاشی ڈھانچے کے عدم توازن کو درست کر تا ہے۔سرمائے کی افزائش، ملازمتوں کے مواقع پیدا کرتا، معیار زندگی میں بہتری لاتا اور دولت کی عدم مساوات کم کرتا ہے۔ لیکن 2022-23 کا بجٹ کچھ حوالوں سے ان اہداف سے دور دکھائی دیتا ہے۔ یہ معاشی عدم توازن، جیسا کہ مالی اور تجارتی خسارے کو کم نہیں کرتا جو مہنگائی میں اضافے اور کرنسی کی قدر میں گراوٹ کا باعث بنتا ہے۔ یہ غیر پیداواری اخراجات، جیسا کہ دفاع، انتظامیہ اور سبسڈی کی دراز رسی کو کم نہیں کرتا۔ یہ شعبے محصولات کا بھاری حصہ ہڑپ کرجاتے ہیں۔ بدترین بات یہ ہے کہ یہ بجٹ ملازمت کے مواقع کم کرتا، معیار زندگی گھٹاتا ہے اور امیر اور غریب کے درمیان فرق کو بڑھاتا ہے۔

لیکن نجم سیٹھی واضح کرتے ہیں کہ سچی بات یہ ہے کہ اس میں پی ڈی ایم حکومت کے فنانس منسٹر، مفتاح اسماعیل کا کوئی قصور نہیں۔ انھیں تحریک انصاف حکومت کی طرف سے تباہ حال معیشت ملی تھی۔ اسے درست کرنے اور پٹڑی پر چڑھانے کے لیے طویل اور مشقت طلب کاوش درکار ہے۔ درحقیقت مفتاح اسماعیل کی مشکلات کی ذمہ داری دو حقائق پر آتی ہے جن کے رونما ہونے میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں: پہلا، تحریک انصاف نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک مشکل معاہدے پر پہلے ہی دستخط کردیے تھے۔ اب موجودہ وزیر خزانہ اس معاہدے سے انکارنہیں کرسکتے تھے ورنہ ملک مالیاتی طور پر دیوالیہ ہو جاتا۔ دوسرا، پی ڈی ایم کی حکومت کے پاس یہ گند صاف کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پندرہ ماہ ہیں۔ بدترین بات یہ ہے کہ بمشکل ایک ماہ بعد یہ دوبارہ رائے دہندگان کے غصے کا سامنا کرنے پر مجبور ہوسکتی ہے۔ ان خوف ناک معروضات کے درمیان بجٹ بنانا یقیناً ایک مشکل اور تکلیف دہ کام تھا۔ اس لیے مفتاح اسماعیل کو خراج تحسین پیش کرنا پڑے گا کہ اُنھوں نے نہ صرف اس چیلنج کو قبول کیا بلکہ مشکلات کے منجدھار سے بچ نکلتے بھی دکھائی دیے۔ اب مالی طور پر دیوالیہ ہونے کا اندیشہ ٹل چکا کیوں کہ آئی ایف ایم بجٹ اور وزیر خزانہ کے مثبت قدم اٹھانے کے عزم سے مطمئن ہوتے اگلے ماہ پاکستان کو پیکیج دے گا۔ اس کے بعد مہربان عالمی مالیاتی ادارے اور مشرق وسطیٰ کے دوست ممالک کی طرف سے بھی امدادی رقوم کی آمد شروع ہوجائے گی۔

لیکن نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ دوسری طرف یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر کوئی مفتاح استعمال کے نسخے سے اتفاق کرے۔ مختلف حلقوں میں بحث ہوگی، اور سیاسی معیشت کے اپنے اپنے امکانات کے تناظر میں اس کے حق میں اور مخالفت میں دلائل ارزاں کیے جائیں گے۔ مثال کے طور پراُنھوں نے توانائی کے بلند نرخوں کے دباؤ سے غریب آدمی کو بچانے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 364 ارب روپے رکھے ہیں جو پاکستان کے چودہ ملین گھرانوں تک پہنچیں گے۔ وزیر خزانہ غربت کم کرنے اور ترقیاتی منصبوں کے لیے مزید رقم مختص کرسکتے تھے لیکن اس کے لیے دفاع سے رقم نکالنا پڑتی۔ اس سے طاقت ور غالب اور ہمہ گیر اسٹیبلشمنٹ ناراض ہو جاتی۔ اُنھوں نے اشیائے تعیش پر ٹیکس بڑھایا لیکن ضروری ادویہ، زرعی مشینری، سولر سیل وغیرہ پر کم کردیا۔ انہوں نے کم از کم قابل ٹیکس رقم کی حد پچاس ہزار ماہانہ سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کردی ہے۔

دوسری طرف دولت مند افراد اور اداروں، جیسا کہ کمرشل بینکوں کی آمدنی، مالی مفاد اور جائیداد پر ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ چھوٹے دوکان داروں پر بھی تین ہزار سے دس ہزار روپے ماہانہ بلواسطہ ٹیکس عائد کرکے اُنھیں بھی ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے۔ اس کے خلاف کوئی احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ اس کے باوجود کچھ کمی کوتاہی رہ گئی ہے۔ وزیر خزانہ کو پانچ ہزار روپے کے نوٹ کو ختم کردینا چاہیے تھا کیوں کہ یہ ملک میں کالے دھن کے انتقال کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر پانچ ہزار کا نوٹ ختم کردیا جائے تو لین دین بینک کے ذریعے ہوگااور مستند منی ٹریل مل جائے گی۔ اس کی وجہ سے ٹیکس وصول کرنا اور ٹیکس کے دائرے کو بڑھانا ممکن ہوجائے گا۔ اُنھیں وراثت میں ملنے والی جائیداد پر بھاری ٹیکس عائد کرنا چاہیے تھا۔ باپ کی موت کے بعد بیٹوں کو جائیداد کی منتقلی عام طور پر دولت مند افراد کی طرف سے ہوتی ہے۔ اُنھیں تعمیرات کے شعبے میں کالے دھن کے استعمال کے نتیجے میں ہونے والی معاشی نمو کے فائدے اور نقصان کا جائزہ لے کر اس کے مطابق پالیسی وضع کرنی چاہیے تھی۔ شوگر انڈسٹری اور مختلف برآمدی مال تیار کرنے والی صنعتوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کی ضرورت تھی کیوں کہ کرنسی کی قدر میں کمی نے اُنھیں مسابقت کے قابل بنا دیا ہے۔ اُنھیں تھوڑی سی ہمت دکھاتے ہوئے انڈیا کے ساتھ اہم اشیا کی تجارت بھی شروع کردینی چاہیے کیوں کہ اب ”جیواکنامک“ وجوہ کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ بھی اس کی مخالف نہیں۔ اس سے ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی ہوگی، ضروری اشیا کے یک لخت مارکیٹ سے غائب ہونے کا سلسلہ رک جائے گا اور مہنگائی میں کمی آئے گی۔

لیکن نجم سیٹھی کے بقول ابھی نہ گند صاف ہوا ہے، نہ کام ختم۔ مفتاح اسماعیل نے بہت کھلے الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ جولائی کے وسط میں ہونے والے اجلاس میں بجٹ میں کی گئی تجاویز پر غور کرے گا۔ عین ممکن ہے کہ وہ مزید سخت اقدامات پر اصرار کرے۔ اس لیے چند ماہ بعد منی بجٹ خارج از امکان نہیں۔ اس دوران سیاست ریاست اور معاشرے کو مزید زک پہنچانے کے لیے کمر بستہ ہے۔ محاذ آرائی کی کوئی بھی کیفیت معیشت کی بحالی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ عمران خان دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری سے پیدا ہونے والی عوامی بے چینی کا فائدہ اٹھا تے ہوئے اگلے ماہ پی ڈی ایم حکومت کو گھر بھیج دیں گے تاکہ اکتوبر میں ملک میں انتخابات ہوسکیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں آئی ایم ایف پروگرام معطل ہوجائے گا جس کے ملک کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کی پاکستان کو دو سو بلین روپے قیمت چکانا پڑے گی اور بجٹ کا دھڑن تختہ ہوجائے گا۔ اسکے بعد اگر عمران خان نے انتخابی نتائج قبول کرنے سے انکار کردیا یا الیکشن کے نتیجے میں ایک کمزور مخلوط حکومت وجود میں آئی جو آئی ایم ایف پروگرام کو نافذ کرنے کی سکت نہ رکھتی ہوئی تو ملک ناقابل بیان سیاسی بحران کا شکار ہوجائے گا۔ نجم کے بقول پی ڈی ایم حکومت نے بلاشبہ سیاسی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دی ہے۔ اس کا سیاسی مفاد اس میں تھا کہ پارلیمنٹ تحلیل کرتے ہوئے فوری انتخابات کی طرف بڑھ جاتی۔ اس وقت عمران خان کی پوزیشن خراب تھی۔ پی ڈی ایم کو تحریک انصاف کے پھیلائے گند کو صاف کرنے میں اپنے ہاتھ آلودہ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ درحقیقت اس نے اسٹیبلشمنٹ کی واضح ہدایت کے مطابق ”قومی مفاد“ میں ایسا کرتے ہوئے ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیے کو بھی زک پہنچائی ہے۔ لیکن اگر اب اس سب کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے عمران کے دباؤ کے سامنے جھکتے ہوئے پی ڈی ایم حکومت کو اکتوبر 2023 تک کارکردگی دکھانے کی مہلت نہ دی اور الیکشن کروا دیے تو اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور بربادی کا الزام صرف اور صرف فوج کے سر آئے گا۔

Related Articles

Back to top button