امریکی ڈالر نے پاکستانی روپے کو روند کر رکھ دیا

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کے باعث امریکی ڈالر نے پاکستانی روپے کو روند کر رکھ دیا ہے جس کے باعث روپے کی قدر مسلسل گرتی جا رہی ہے اور ڈالر نے 205 کی حد کراس کر کے بلند ترین سطح پر پہنچتے ہوئے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔

پنجاب : پی ٹی آئی اور ق لیگ کا بجٹ ،ضمنی الیکشن کیلئے لائحہ عمل طے

معاشی ماہرین امریکی ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کی وجہ بین الاقوامی منڈی میں ڈالر کی قدر میں اضافے کو قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالرز کے پیکیج کا اب تک بحال نہ ہونا اور پاکستان کے زرمبادلہ کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے ذخائر ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ چین اور دیگر اتحادی پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں اور اس حوالے سے باضابطہ اعلان ہونے تک موجودہ غیر یقینی صورت حال برقرار رہے گی۔ یاد رہے کہ جرمنی میں ایف اے ٹی ایف کا اجلاس جاری ہے جس میں 17 جون تک پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ ہونا ہے۔ اسلام آباد میں پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی پیش کردہ سات میں سے چھ شرائط پر مکمل عملدرآمد ہو چکا ہے جبکہ ساتویں شرط کے حوالے سے کام ابھی جاری ہے۔

دوسری جانب پاکستانی کرنسی ڈیلرز کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت میں مخلوط حکومت کو اقتدار میں آئے دو ماہ گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک وہ کہیں سے بھی ڈالر کی آمد کو محفوظ بنانے سے قاصر ہے، لہٰذا قیاس آرائی کرنے والی قوتوں کے لیے زر مبادلہ کی شرح میں ہیرا پھیری کے نادر مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر کی مانگ اب بھی بہت زیادہ ہے لیکن اس کی قیمت میں تیزی سے اضافہ جائز نہیں ہے۔ بینکرز کا خیال ہے کہ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کے کمزور ہونے کی اہم وجہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ریکارڈ ترسیلات زر اور برآمدات میں شاندار نمو کے باوجود بڑھتی ہوئی درآمدات اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بڑے خسارے کی وجہ سے روپیہ دباؤ میں ہے۔ اپریل میں نئی حکومت آنے کے بعد سے 13 جون تک ڈالر کی قیمت میں 21 روپے کا اضافہ ہوا اور اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو ممکنہ طور پر اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل مقامی کرنسی کو بچانے کے لیے نئے پیش کردہ بجٹ میں کوئی موثر حکمت عملی دینے میں ناکام رہے ہیں، ڈالر کی قدر میں اضافے نے نہ صرف درآمدی اشیا اور خدمات کی قیمتیں مہنگی کردی ہیں بلکہ معیشت میں افراط زر بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق امریکی ڈالر 14 جون کو 203.90 روپے پر بند ہونے کے بعد 14 جون کو ساڑھے 10 بجے صبح 1.70 روپے اضافے کے بعد 205.50 روپے تک پہنچ گیا، فاریکس ایسوسی ایشن کی جانب سے گزشتہ روز کا ریٹ سٹیٹ بینک آف پاکستان سے تھوڑا سا مختلف ہے جس نے گزشتہ روز ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 203.86 روپے ظاہر کی تھی۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عالمی منڈیوں کے رجحانات کی وجہ سے روپیہ گراوٹ کا شکار ہے جہاں بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی ڈالر آج 20 سال کی بلند ترین سطح پر کھڑا ہے جس سے ہر شعبہ زندگی میں ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں مقدار کی بنیاد پر قدر بڑھنے اور ڈالر کی مضبوطی دراصل عالمی منڈی میں قدر بڑھنے کے اصل محرکات ہیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ جاپان کا ین 24 سال کی کم ترین سطح پر ہے اور دیگر بڑی اور علاقائی کرنسیاں بھی کئی سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہی چیز مقامی تاجروں کے ذہنوں میں چل رہی ہے۔

معاشی ماہرین بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ پاکستان کے 6 ارب ڈالر کے رکے ہوئے پروگرام کو روپے کی گراوٹ کی اہم ترین وجہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ مقامی کرنسی مارکیٹ کو ان امریکی ڈالر کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی قرض کی سہولت اپریل کے اوائل سے ہی تعطل کا شکار ہے کیونکہ بین الاقوامی قرض دہندہ کے ساتھ مذاکرات بے نتیجہ رہے، آئی ایم ایف نے پہلے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی ایندھن اور توانائی کی سبسڈی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اب نئی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے مقرر کردہ اہداف پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے حال ہی میں کہا تھا کہ پاکستان کے سال 23-2022 کے بجٹ کو آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے پروگرام کے کلیدی مقاصد کے مطابق لانے کے لیے اضافی اقدامات کی ضرورت ہو گی۔ ماہرین کے مطابق روپیہ دباؤ کا شکار ہے کیونکہ حکومت نے مالی سال 23-2022 کے بجٹ میں جو اہداف مقرر کیے تھے وہ آئی ایم ایف کی توقعات کے مطابق نہیں ہیں، نئی حکومت کے بجٹ اقدامات نے آئی ایم ایف پروگرام کے دوبارہ شروع ہونے پر غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ لہذا جب تک حکومت آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ شروع نہیں کر پاتی، روپے پر دباؤ برقرار رہے گا۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین سے آنے والی امداد بھی غیر یقینی کا شکار ہے جہاں پاکستان 2.3 ارب ڈالر کی رقم کے رول اوور کا منتظر ہے۔ ساتھ ہی روپیہ، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے پیش نظر اپنی قدر کھو رہا ہے جہاں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔ یہی ایف اے ٹی ایف کی وہ ساتویں شرط ہے جس پر پاکستان ابھی تک پوری طرح عمل درآمد نہیں کر پایا۔ یاد رہے کہ پاکستان جون 2018 سے انسداد دہشت گردی کی مالی اعانت اور انسداد منی لانڈرنگ نظاموں میں خامیوں کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے۔

Related Articles

Back to top button