اپنی ماں کے قاتل مشرف کو کبھی معاف نہیں کریں گے


محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی صاحبزادی بختاور بھٹو نے سابق ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی پاکستان واپسی کی خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ میری والدہ کے قتل میں ملوث تھا اور ہمارا خاندان اسے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بختاور بھٹو زرداری نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے لکھا کہ مفرور ڈکٹیٹر سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل میں براہ راست ملوث ہے اور مفرور ڈکٹیٹر کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا، اسکی جتنی بھی زندگی بچی ہے اس میں اسے نہ تو ہماری طرف سے معافی ملے گی اور نہ ہی تاریخ اسے کبھی معاف کرے گی۔

پیپلز پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بختاور بھٹو کا یہ سخت ردعمل سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے پرویز مشرف کی واپسی بارے مثبت جذبات کے اظہار کے بعد آیا ہے۔نواز شریف نے پرویز مشرف کے حوالے سے کہا تھا کہ میری مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی یا عناد نہیں، اور میں نہیں چاہتا کہ اپنوں کے جو صدمے مجھے سہنا پڑے وہ کوئی اور بھی سہے۔ اپنے ٹوئٹر بیان میں نواز شریف نے کہا تھا کہ مشرف کی صحت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں، پرویز مشرف واپس آنا چاہیں تو حکومت سہولت فراہم کرے۔ ہم اپنے اس بیان کے بعد نواز شریف شدید عوامی تنقید کی زد میں آئے تھے اور ناقدین نے سوال کیا تھا کہ انہیں ایک سزا یافتہ آئین شکن مجرم کو معاف کرنے کا اختیار کس نے دیا؟ مریم نواز نے اپنے والد کے بیان کی وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے جو کچھ بھی کہا وہ ذاتی حیثیت میں کہا اور میاں صاحب ووٹ کو عزت دینے کے اپنے بیانیے پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔

اس سے پہلے بختاور بھٹو نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی بیٹی فضا گیلانی کی پرویز مشرف سے متعلق ایک ٹویٹ کے جواب میں ان کی رائے کو ’انتہائی بے حس‘ قرار دیا۔ فضا بتول گیلانی نے م ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’جب آپ خود کو تکلیف پہنچانے والوں کو معاف کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایسا کر کے آپ ان کی طاقت ختم کر دیتے ہیں۔ ٹویٹ کے اختتام پر انہوں نے ’معافی بہادری کی علامت ہے‘ لکھا تو اپنے والد یوسف رضا گیلانی کا اکاؤنٹ بھی مینشن کیا۔ اس ٹویٹ کو اپنے تبصرے کے ساتھ ری ٹویٹ کرتے ہوئے بختاور بھٹو نے لکھا کہ مشرف کے معاملے پر معافی یا بہادری کا کوئی سوال نہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے اہلخانہ ایسا محسوس کرتے ہوں لیکن شہید بےنظیر بھٹو کی بیٹی ہونے کے ناطے خصوصا میری والدہ کے قتل میں اس کے براہ راست ملوث ہونے پر میں ایسا کچھ بھی محسوس نہیں کرتی۔ ‘

بختاور بھٹو زرداری اور فضا بتول گیلانی میں ہونے والی گفتگو اگرچہ پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت اور ان کے گھروں میں متضاد آرا کی موجودگی کی علامت ہے تاہم یہ اس نوعیت کا پہلا مکالمہ نہیں۔گزشتہ چند روز سے ’پرویز مشرف کو وطن واپس آنے دیا جائے، ان کے خلاف عدالتی فیصلے پر عمل کیا جائے یا آئین توڑنے اور فوجی سربراہ ہوتے ہوئے ملکی اقتدار پر قبضہ کرنے کی پاداش میں ان سے ویسا ہی سلوک کیا جائے‘ کے نکات سوشل ٹائم لائنز پر خاصے نمایاں رہے ہیں۔سینیٹ آف پاکستان کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پرویز مشرف نے انہیں جیل میں ڈالا، رہا ہو کر وزیراعظم بنے تو حلف بھی مشرف نے لیا۔ میں نے اسی وقت انہیں معاف کر دیا تھا۔‘جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنی تقریر کے دوران پرویز مشرف کی آئین شکنی اور اپنے حلف سے بدعہدی کا ذکر کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’اگر مشرف سے جرائم کا نہیں پوچھنا اور وی آئی پی پروٹوکول دینا ہے تو پھر عدالتوں کو بند کر دیں، جیلیں کھول دیں، آئین کو لپیٹ دیں۔‘

 پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اپنی تقریر میں اتفاق کیا کہ پرویز مشرف نے ناقابل معافی مظالم کیے لیکن اگر ان کی صحت ٹھیک نہیں اور وہ وطن آنا چاہیں تو انہیں آنے دیا جائے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ’پرویز مشرف کی صحت بہت خراب ہے۔ فوجی قیادت کا موقف ہے کہ مشرف کو واپس آ جانا چاہیے۔‘’مشرف کی واپسی کا فیصلہ ان کی فیملی نے کرنا ہے جن کے جواب کے بعد ہی انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ 12 اکتوبر 1999 کو آرمی چیف ہوتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر کے آئین پاکستان کو معطل کرنے والا پرویز مشرف نومبر 199 سے اگست 2008 تک اقتدار پر قابض رہا تھا۔ اس دوران اسں نے پہلے مارشل لا لگایا جب کہ دوسری مرتبہ 2007 میں آئین معطل کرتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ 10 برس اقتدار میں رہنے کے بعد مشرف نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مواخذے کی تحریک سے بچنے کے لئے استعفیٰ دے دیا تھا۔

خیال رہے کہ پرویز مشرف دبئی میں مقیم ہے اور اس وقت بستر مرگ پر ہے۔ وہ ایمولائی ڈوسسں نامی نایاب مرض کا شکار ہے جس کا اب تک علاج دریافت نہیں ہو پایا۔ اس مرض میں ایک ایک کر کے جسم کے سارے اعضاء کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور بندہ بے حس و حرکت ہو جاتا ہے۔ اس لئے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اب مرض آخری سٹیج پر ہے اور مشرف کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔

Related Articles

Back to top button