پاکستان میں عقل کی بات کرنا جرم کیوں بن چکا ہے؟

 

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ احسن اقبال نے

چند دن قبل قوم سے چائے کے ایک دو کپ کم کرنے کی درخواست کی جو سوشل میڈیا پر مذاق بن گئی۔ اس پر قوم کا ردعمل حیران کن تھا اور یہ ثابت کرتا ہے ملک میں عقل کی بات جرم بن چکا ہے اور ہم صرف جذبات میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ چائے نہ صرف صحت کے لیے مضر ہے بلکہ ہم سالانہ چائے کی امپورٹ پر دو اڑھائی سو ارب روپے بھی خرچ کر دیتے ہیں یوں ہم ایک طرف چائے کی امپورٹ پر کثیر سرمایہ ضائع کر رہے ہیں اور دوسری طرف چائے گیارہ بیماریوں کا باعث بھی بن رہی ہے اور ان بیماریوں میں بلڈپریشر‘ نیند کی کمی اور بدہضمی بھی شامل ہے۔

سیٹھ عابد کی بیٹی کے قتل کیس کی تحقیقات میں اہم پیشرفت

اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ آپ کسی بھی بیماری میں مبتلا ہو کر ڈاکٹر کے پاس جائیں وہ آپ کو چائے اور سگریٹ کی کمی کا مشورہ دے گا لہٰذا احسن اقبال نے ایک دو کپ چائے کم کرنے کا مشورہ دے کر کیا جرم کر دیا؟ ہم دراصل من حیث القوم عقل کی بات سننا‘ پڑھنا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے‘ آپ کو یاد ہو گا سوا تین سال قبل غلام سرور خان نے گیزر کولگژری کہا تھا‘صوبائی اسپیکر مشتاق غنی نے دو کی جگہ ایک روٹی اورعلی امین گنڈا پور نے چینی کم استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا تو وہ لوگ بھی مذاق بن گئے تھے اور آج اگر حکومت بجلی کم استعمال کرنے‘ مارکیٹیں نو بجے بند کرنے اور بلاوجہ گاڑی نہ چلانے کا مشورہ دے رہی ہے تو یہ بھی مذاق ہے! کیا قوموں کو بچت نہیں کرنی چاہیے اور کیا ہم سب کو اپنے وسائل کی چادر میں نہیں رہنا چاہیے؟ پورا جاپان اور چین گرین ٹی پیتا ہے‘ پوری عرب دنیا قہوہ پیتی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان اور اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے چین کے پاس چائے خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے لہٰذا ان لوگوں نے لیمن گراس اگائی اور یہ آج تک گرین ٹی پی رہے ہیں‘ اس سے ان کی صحت بھی اچھی ہو گئی اور سرمایہ بھی بچ گیا‘ پوری دنیا میں پش بٹن کی ٹونٹیاں ‘سینسر والی لائٹس اور انسٹنٹ گیزر لگائے جاتے ہیں اور لوگ سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ‘ ٹیکسیاں‘ سائیکل اور پاؤں استعمال کرتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ پانی‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کی بچت کرتے ہیں جب کہ ہماری گاڑیاں گیراج کے اندر بھی آن رہتی ہیں اور ڈرائیور اے سی لگا کر اس میں لیٹے رہتے ہیں‘ ہم پوری سردیاں گیزر بھی آن رکھتے ہیں اور کمروں میں دس دس لائٹس بھی جلاتے ہیں اور ہمارے بازار بھی ساری رات کھلے رہتے ہیں۔

جاوید چوہدری سوال کرتے ہیں کہ آخر اس فضول خرچی کی قیمت کون چکاتا ہے؟ ملک! ملک کو ہر سال اربوں ڈالر کا پٹرول‘ کوئلہ اور گیس امپورٹ کرنی پڑتی ہے اور ہمارا زیر زمین پانی بھی تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے‘ قوم کو اس فضول خرچی سے کسی نے تو روکنا ہے‘ کسی نے تو قوم کو حقائق بتانے ہیں لیکن ہم کبھی کم روٹیوں کو مذاق بنا لیتے ہیں اور کبھی گیس‘ بجلی‘ پٹرول اور چائے کی بچت کو‘ کیا یہ عقل مندی ہے؟

انکا کہنا ہے کہ میں وقت کے ساتھ ساتھ کنونس ہوتا جا رہا ہوں کہ ہم بیک وقت ذہین اور نالائق قوم ہیں‘ ہم اگر کرنا چاہیں تو ہم ایٹم بم بھی بنا لیتے ہیں اور تین برسوں میں ایف اے ٹی ایف کی ساری شرائط بھی پوری کر دیتے ہیں اور ہم اگر نہ کرنا چاہیں تو ہم 75 برس بعد بھی بنیادی ایشوز پر قوم میں اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکتے چنانچہ ہم بیک وقت انتہائی نالائق اور انتہائی ذہین ہیں‘ آپ دیکھ لیں ہم قلیل وسائل میں کتنی شان دار زندگی گزار رہے ہیں اور ہم انفرادی سطح پر کتنے کام یاب ہیں؟ میرا دعویٰ ہے ہم میں سے ہر شخص اپنے والدین کے مقابلے میں بہتر زندگی گزار رہا ہے‘ ہمارے فقیر بھی اپنے والدین سے زیادہ سہولتوں کو انجوائے کر رہے ہیں‘ ہم مزید بھی آگے بڑھ سکتے ہیں بس ہم نے کچھ اہم فیصلے کرنے ہیں اور ان فیصلوں میں توانائی میں خودکفالت بھی شامل ہے‘ ہمیں روزانہ 4 لاکھ 35 ہزار بیرل پٹرول چاہیے جب کہ ہم صرف 70 ہزار بیرل پیدا کرتے ہیں‘ فرق3 لاکھ 65 ہزاربیرل ہے۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ ہماری گیس کی ضرورت 4100 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جب کہ پیدا 3496 ہو رہی ہے‘ ایل پی جی کی ضرورت 4600 ملین ٹن ہے اور پیدا 2083 ملین ٹن ہو رہی ہے اور کوئلے کی ضرورت ایک کروڑ ٹن سالانہ ہے جب کہ ہم ایک چوتھائی پیدا کر رہے ہیں‘ ہمارے پاس ان چاروں ضرورتوں کے قدرتی وسائل موجود ہیں لہٰذا ہمیں فوری طور پر ان کی پیداوار اپنی ضرورت کے برابر کرنی ہو گی اور اس کے لیے ہمیں خواہ کچھ بھی کرنا پڑے ہمیں کرنا چاہیے‘ دوسرا ہمیں ان چاروں ضرورتوں کی راشننگ بھی کرنا ہوگی‘ ہم ضرورت کی حد سے زیادہ کسی کو بجلی دیں اور نہ پٹرول‘ گیس‘ کوئلہ اور پانی تاکہ لوگوں میں بچت کا رجحان پیدا ہو سکے۔ تیسرا ہم لوگوں کو بجٹ بنا کر دیں‘ حکومت لوگوں کو گائیڈ کرے آپ تیس ہزار روپے میں کیسے گزارہ کر سکتے ہیں اور آپ اپنی آمدنی میں کیسے اضافہ کر سکتے ہیں اور یہ کام احسن اقبال جیسا شخص ہی کر سکتا ہے۔

بقول جاوید چودھری آپ یہ بات قوم کو سمجھانے کی ذمے داری احسن اقبال کو دیں۔ وہ ہمیں سمجھائے گا کہ اگر ساری رات مارکیٹیں کھلی رہیں گی یا شادی بیاہ اور تقریبات پر اصراف ہو گا تو اس کا عام آدمی کی جیب اور صحت پر کیا فرق پڑے گا اور قوم کو اس کی کیا کیا اور کہاں کہاں قیمت ادا کرنی پڑے گی؟ احسن قوم کو بتائے گا آپ کے پاس دو آپشن ہیں آپ ساری رات مارکیٹیں کھول کر دو ماہ میں سری لنکا بن جائیں یا پھر بجلی‘ پٹرول‘ گیس‘ چائے‘ کوکنگ آئل اور آٹا کم کر کے خوش حال زندگی گزار لیں‘ قوم کو بہرحال اس وقت رہنمائی اور اتفاق دونوں کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف احسن اقبال کر سکتا ہے چنانچہ آپ اسے ’’اتفاق رائے‘‘ کا وزیر بنا دیں‘ ملک کو اس وقت اس وزارت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

Related Articles

Back to top button