جبری گمشدگیوں کا سلسلہ یونیورسٹیوں تک کیسے پہنچ گیا؟


سابق وزیر اعظم عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ نواز دور میں شروع ہونے والا بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے قیام کے باوجود رکنے میں نہیں آرہا ۔ اب تک بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 31 طلبا کے نام رپورٹ کیےجا چکے ہیں، جو جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ہیں۔ پہلے سکیورٹی ایجنسیاں دہشتگردی کے نام پر لوگوں کو غائب کرتی تھیں لیکن اب یہ سلسلہ یونیورسٹیوں تک جا پہنچا ہے۔

جبری گمشدگیوں کا سب سے زیادہ شکار بلوچ طلبا بن رہے ہیں، اور اس کیخلاف بلوچ طلبا کی جانب سے شدید احتجاج کیا جا رہا ہے، بلوچستان کے طلبا کی خصوصی ’’پروفائلنگ‘‘ کی جاتی ہے یا ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔

حال ہی میں لاپتہ ہونے والے طالب علم 17 برس کے فیروز بلوچ ہیں، ان کی مبینہ جبری گمشدگی اور عدم بازیابی کے خلاف راولپنڈی میں بلوچ طلبا نے بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے زیرانتظام ایک احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے جس میں سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک طالب علم اپنی ہی یونیورسٹی کی لائبریری سے غائب ہو جائے۔

17 برس کے فیروز بلوچ راولپنڈی کی پیر مہرعلی شاہ ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی میں بی ایڈ کے دوسرے سمسٹر کے طالب علم ہیں، ان کا تعلق بلوچستان کے علاقے تُربت سے ہے اور ان کے والد ایک سرکاری ملازم ہیں، ان کے ساتھیوں کے مطابق وہ راولپنڈی آنے سے پہلے ایک گیراج میں مزدوری کرتے تھے۔

احتجاج میں شریک لاپتہ فیروز کے کزن نے بتایا کہ فیروز پڑھائی میں کمزور تھے اس لیے روزانہ رات نو بجے تک لائبریری میں بیٹھتے تھے، گیارہ مئی کو وہ ہاسٹل سے لائبریری کی جانب گئے جو یونیورسٹی میں ہی موجود ہے، مگر رات نوبجے کے بعد بھی وہ واپس نہ آئے، اس دوران ان کے ساتھیوں نے فون پر رابطے کیے مگر ان کا نمبر بھی بند ملا۔
فیروز بلوچ کے کزن نے بتایا کہ اگلے روز صبح گھر والوں سے رابطہ ہوا تو ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ فیروز نے انھیں کوئی کال یا میسج نہیں بھیجا،فیروز کا نہ تو کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ تھا نہ ہی کسی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سرگرم تھے، فیروز بلوچ کے کزن کے مطابق ان کا تعلق ایک نہایت غریب گھرانے سے ہے اور فیروز تعلیم حاصل کرکے تربت میں تعلیم کا بہتر انتظام کرنا چاہتے تھے۔

احتجاجی کیمپ میں شریک بلوچ طلبا کا ایک بڑا شکوہ یہ بھی ہے کہ ان کے لباس کی بنیاد پر انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے اور تضحیک آمیز جملے کسے جاتے ہیں، یونیورسٹی کے سامنے آئی ٹی کی عمارت میں ہمیں جانے کی اجازت صرف اسی صورت میں ہے جب ہم نے پینٹ شرٹ پہنی ہو یا سادہ شلوار قمیض،احتجاجی کیمپ میں شریک وکیل اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن ایمان زینب مزاری نے کہا کہ اب تک وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 31 طلبا کے نام سامنے لا چکی ہیں جو جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ فیروز بلوچ کے کیس میں ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا جا رہا، ہم نے پولیس کو کہا ہے کہ کم از کم لیگل ٹیم کو تو آپ سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائیں تاکہ ہم شناخت کر سکیں، مگر ہمیں نہیں دکھائی جا رہی اور کہتے ہیں کہ وہ فوٹیج میں موجود ہی نہیں ہیں یعنی ریاست چاہتی ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ یہاں لوگ ہوا میں ہی غائب ہو جاتے ہیں۔

ادھر بلوچ طلبا کہتے ہیں کہ وہ احتجاجی کیمپ جاری رکھیں گے اور اس معاملے پر ہراسگی کی پرواہ نہیں کریں گے، جب تک کہ ان کے ساتھی طلبا کی بازیابی کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کر لیے جاتے۔ ان طلبا نے اپنے پوسٹرز پر یہ تحریر بھی لکھ رکھی ہے کہ پنجاب آپ کی مہمان نوازی کا شکریہ۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے وزارت داخلہ کو اگلی سماعت پر کیس کی تفصیل فراہم کرنے کا حکم دیا ہے، اس کے ساتھ یہ ہدایت بھی کی ہے کہ بلوچ طلبا کی جانب سے پروفائلنگ کی شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے ایک کمپلین سینٹر قائم کیا جائے۔

Related Articles

Back to top button