اتحادیوں کو فون آ جاتے تو میری حکومت کبھی نہ گرتی


سینئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی اتحادی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد دائر ہونے کے بعد ان سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر وہ انہیں اصل فیصلہ سازوں کا فون کروا دیں تو وہ ان سے علیحدہ نہیں ہونگے۔

جاوید چودھری نے کہا کہ عمران خان نے ایک ملاقات میں مجھے بتایا کہ انکی اتحادی جماعتوں کا موقف تھا کہ ہم پر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پریشر ہے، لیکن اگر آپ ہمیں فون کروا دیں تو ہم آپ سے علیحدہ نہیں ہونگے۔

یہ بات انہوں نے اپنے ایک وی لاگ میں کی۔ جاوید چودھری کا کہنا تھا کہ میں نے عمران خان سے پوچھا کہ کیا واقعی اوپر سے ٹیلی فون آتے تھے؟ تو انہوں نے بتایا کہ آخری وقت میں تو بہت زیادہ آتے تھے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے لوگ بہت پریشان ہو چکے تھے۔

بقول جاوید سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ اراکین جو منحرف ہو کر پیپلز پارٹی کے کیمپ میں چلے گئے تھے، ان میں سے اکثر بتاتے تھے کہ ہم فون کال کی وجہ سے آپکی حکومت کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور اگر آپ پی ٹی آئی میں ہماری واپسی چاہتے ہیں تو ہمیں بھائی لوگوں سے ایک ایک فون کر وا دیں۔

جاوید چودھری کے مطابق عمران نے کہا کہ ایم کیو ایم کے سینئر رہنما خالد مقبول صدیقی نے بھی یہی کہا تھا کہ آپ اگر ہم سے اتحاد برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں فون کروانا بہت ضروری ہے کیونکہ ہم اتنا پریشر برداشت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے اپنے وی لاگ میں کہا کہ عمران نے ایک اور دلچسپ بات یہ بتائی کہ 9 اپریل 2022 کی رات کوئی خوفناک واقعہ نہیں ہوا تھا۔ نہ ہی کوئی ہیلی کاپٹر آیا اور نہ ہی انہیں فوج کی جانب سے پریشررائز کیا گیا تھا۔ میں نے صرف امریکی مراسلے کو ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کیلئے کابینہ کا اجلاس بلایا تھا کیونکہ میرا خیال یہ تھا کہ اگر ہماری حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو اس کے بعد اسے ڈی کلاسیفائیڈ نہیں کیا جائے گا اور اگر میں نے اس مراسلے کو لیک کر دیا تو میرے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی شروع ہو جائے گی۔

عمران نے جاوید چوہدری کو بتایا تھا کہ اس لئے میں نے کابینہ سے ایسا کرنے کی کی اجازت لی، اس کے بعد سارے معاملات درست سمت میں چل رہے تھے۔ میں نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر سے کہا تھا کہ چونکہ سپریم کورٹ کا آرڈر ہے اس لئے پارلیمنٹ کی کارروائی شروع کرکے اسے چار دنوں تک آگے لے جایا جائے۔ اس کے بعد اگر میرے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ ہوتی ہے تو اسے ہونے دیا جائے۔ لیکن یاد رہے کہ عمران کے دعوے کے برعکس انہوں نے تحریک عدم اعتماد رکوانے کیلئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے ذریعے آئین کی بھی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔

جاوید چودھری کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین نے انہیں بتایا کہ 9 اپریل کی رات جب میرے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بحث جاری تھی تو اسد قیصر اچانک وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گئے۔ ان کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا اور ان کی کانپیں ٹانگ رہی تھیں۔ میں نے ان کی حالت دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا؟ انہوں نے بتایا کہ مجھے کہا گیا ہے کہ آپ یا تو اس معاملے سے الگ ہو جائیں یا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائیں، ورنہ آپ ڈس کوالیفائی ہو جائیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ بھائی کچھ نہیں ہوتا، آپ ڈٹے رہو لیکن انہوں نے مجھ سے معذرت کر لی۔ عمران سمجھتے ہیں کہ اگر اسد قیصر کی کانپیں نہ ٹانگتیں تو آج صورتحال مختلف ہوتی اور وہ اب بھی وزیراعظم ہوتے۔

Related Articles

Back to top button