نوازشریف کو نااہل کروانے والے عمران کو خود نا اہلی کا خطرہ


ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا سامنا کرنے والے سابق وزیراعظم عمران خان ماضی میں اس قانون کی وکالت کرتے رہے ہیں اور یہ بھی فرما چکے ہیں کہ اگر اسکے تحت وہ بھی نااہل ہو جائیں تو انہیں افسوس نہیں ہو گا کیونکہ جو شخص صادق اور امین نہیں اسے عوام کی نمائندگی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت اپنے خلاف ریفرنس دائر ہوتے ہی خان صاحب نے یہ شور ڈال دیا ہے کہ انہیں سیاست سے ٹیکنیکلی ناک آئوٹ کرنے کے لیے نااہل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ لیکن یہ رونا روتے ہوئے خان صاحب شاید بھول گئے کہ انہوں نے خود آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت سپریم کورٹ میں درخواست ڈال کر پہلے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نااہل کروایا تھا اور پھر پارٹی صدارت سے بھی محروم کروایا تھا۔ ایسے میں اگر عمران کے خلاف آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت دائر کردہ ریفرنس کومکافات عمل قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

قانونی اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پر صادق اور امین نہ رہنے کی وجہ سے نا اہلی کی تلوار لٹک گئی ہے جو کسی بھی وقت ان کی گردن کاٹ سکتی ہے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ عمران خان بطور پی ٹی آئی سربراہ اپنی جماعت کے فنڈز کے حوالے سے جن بےقاعدگیوں کے مرتکب ہوئے ہیں ان کی الیکشن کمیشن کے فیصلے میں تصدیق ہو گئی ہے۔ سابق اٹارنی جنرل کا ممکنہ نااہلی کے حوالے سے کہنا تھا کہ اس بنیاد پر وفاقی حکومت یا کوئی بھی پاکستانی شہری کسی بھی اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر موقف اختیار کر سکتے ہیں کہ عمران خان آئین پاکستان کی شق 63(1)ایف کی رو سے ’صادق و امین‘ نہیں رہے۔ ایسے میں اگر عدالت اس موقف کی تائید کرتی ہے، تو عمران پارٹی کی سربراہی، پارلیمان کی رکنیت یا کسی بھی دوسرے عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار پائیں گے۔سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں کسی بھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’سٹیٹ بینک سے حاصل ہونے والی معلومات اور ریکارڈ پر موجود دوسرے ثبوتوں کی روشنی میں معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن کمیشن کے پاس داخل کی گئی اپنی جماعت کی مالی سال 09-2008 اور 13-2012 تک کی فنانشل سٹیٹمینٹس انتہائی غلط پائی گئیں۔‘
1973 کے آئین کے تحت پاکستانی پارلیمان کا رکن بننے کے لیے کسی شخص کا سچا اور امانت دار ہونا ضروری ہے۔ لیکن حکومتی اتحاد کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی کی ’غلط فنانشل سٹیٹمینٹس‘ داخل کروانے کے بعد ’صادق اور امین نہیں رہے۔‘

آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران مسلسل پانچ برس تک الیکشن کمیشن کے پاس مالی سالوں کے ’غلط سالانہ حسابات‘ جمع کروا کر سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور ان کے کام کرنے سے متعلق رائج قانون پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کی دفعہ 13 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس 2002 کی دفعہ 13میں درج ہے کہ ہر سیاسی جماعت، ہر مالی سال کے اختتام پر 60 روز کے اندر اپنے اکاؤنٹس کی تفصیلی سٹیٹمنٹ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے ذریعے الیکشن کمشنر کے تجویز کردہ طریقے سے الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائے گی، جس میں سالانہ آمدنی اور اخراجات، فنڈز کے ذرائع، اور اثاثے اور واجبات شامل ہوں گے۔ اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ دو میں درج ہے کہ سیاسی جماعت کی سالانہ سٹیٹمنٹ کے ساتھ اس کے سربراہ کی طرف سے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ بھی ہونا لازمی ہو گا، جس میں پارٹی سربراہ درج کرے گا کہ اس کی جماعت سے قانون کے تحت ممنوعہ ذرائع سے کوئی چندہ یا عطیات پارٹی کو موصول نہیں ہوئے، اور سٹیٹمنٹ میں پارٹی کی درست مالی پوزیشن بیان کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے ان کی جماعت کے جو حسابات درج شدہ پانچ برس کے لیے جمع کروائے ان میں کئی بینک اکاؤنٹس ظاہر نہیں کیے گئے اور غیر ملکی افراد اور کمپنیوں سے فنڈز لیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ جماعت کا سربراہ فنانشل سٹیٹمنٹ کے ساتھ جو سرٹیفکیٹ دیتا ہے، اس میں اعتراف اور تصدیق کرتا ہے کہ اس کی معلومات کے مطابق حسابات کے سلسلے میں کوئی غلط بیانی شامل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان لگاتار پانچ سال تک الیکشن کمیشن کو حسابات کے ساتھ دینے والے سرٹیفکیٹس میں ’اپنی جماعت کے حسابات سے متعلق بعض حقائق پوشیدہ رکھتے رہے۔ آئین پاکستان کی شق 63، جو اراکین پارلیمان کی اہلیت سے متعلق ہے، کی ذیلی شق (1) ایف میں درج الفاظ کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ کوئی شخص سمجھدار، نیک، مادی منافع کی فکر نہ کرنے والا، ایماندار اور امین ہوئے بغیر، اور اس کے برعکس کسی عدالت کا فیصلہ نہ ہو، بغیر پارلیمان کے رکن کی حیثیت سے منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ آئین کی شق 63 (1) ایف میں بیان کیے گئے الفاظ نیک، ایماندار اور امین کا حوالہ دینے کے لیے عام طور پر ’صادق و امین‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

قانونی ماہرین اس سلسلے میں راولپنڈی سے مسلم لیگ ن كے سابق ركن قومی اسمبلی حنیف عباسی كی 2017 میں سپریم كورٹ میں دائر كی گئی درخواست کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں درخواست گزار نے عمران خان کے اسی سرٹیفکیٹ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ تاہم تب عدالت عظمی ٰنے موقف اختیار کیا تھا کہ حنیف عباسی کی جانب سے عمران پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات اور کسی مجاز فورم کے فیصلے کے بغیر انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں تحریک انصاف کے سابق رہنما جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا تھا، تاہم عمران خان کے متعلق کہا تھا کہ: ’ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان صادق اور امین نہیں ہیں۔‘

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اب حنیف عباسی کے لگائے گئے الزامات کو الیکشن کمیشن نے طویل تحقیقات کے بعد ثابت کر دیا ہے۔ ’اب سپریم کورٹ کو حنیف عباسی کی درخواست کے فیصلے کی روشنی میں ہی ان حقائق کو دیکھنا ہو گا۔‘ تاہم كچھ دوسرے قانونی ماہرین كے خیال میں سابق وزیراعظم عمران خان كی نااہلی اتنی آسان نہیں ہو گی، اور اس سلسلے میں وفاقی حكومت كو بہت زیادہ کوشش كرنا ہو گی۔

معروف قانون دان سلمان اكرم راجا كی اس سلسلے میں رائے تھی كہ سپریم کورٹ میں بحث اس پر ہو گی کہ پارٹی سربراہ کی طرف سے سالانہ حسابات کے ساتھ دیے جانے والے سرٹیفکیٹ کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاملہ غور طلب تو ہے، لیکن اس میں عدالت کو دیکھنا ہو گا کہ غیر قانونی کام کیا ہوا ہے، اور ہوا بھی ہے کہ نہیں۔ اینكرپرسن اور ماہر قانون منیب فاروق كا كہنا تھا كہ عمران خان كے وكلا كو عدالت کے سامنے بیان حلفی اور سرٹیفکیٹ میں فرق کو واضح کرنا ہو گا، اور ثابت کرنا ہو گا کہ سرٹیفکیٹ بیان حلفی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں عمران خان کی نااہلی کے نقطے میں وزن ہے، اور ان کے وکلا کو اس سے بچنے کے لیے بڑی مدلل اور مختلف بحث سامنے لانا ہو گی۔

Related Articles

Back to top button