مولانا طارق جمیل عمرانڈو بیانیے کی وجہ سے تنقید کی زد میں

اپنی خوشامدی صلاحیتوں کی وجہ سے درباری ملا کا خطاب پانے والے مولانا طارق جمیل تبلیغی جماعت کے ذریعے اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کے الزام پر جماعت سے فارغ کیے جانے کے بعد اب کھل عمرانڈو بیانیہ اپناتے نظر آتے ہیں جس وجہ سے وہ اس وقت سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ یاد رہے کہ تبلیغی جماعت کی قیادت نے مولانا طارق جمیل کی تیزی سے متنازعہ ہوتی شخصیت اور انکی سیاسی سرگرمیوں کے پیش نظر انہیں خود سے دور کر دیا ہے تا کہ جماعت کی ساکھ بچائی جا سکے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملک بھر میں تبلیغی جماعت کی پہچان بن جانے والے مولانا طارق جمیل کے عمران خان کی جانب حد سے زیادہ جھکاؤ اور انتہا ئی خوشامد نے تبلیغی جماعت کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کرنے شروع کر دیے تھے لہذا اب جماعت کی قیادت کی جانب سے طارق جمیل سے دوری اختیار کرنے کی واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

یاد رہے کہ ماضی کے ہر حکمران کی طرح مولانا طارق جمیل کو عمران خان کے بھی کافی قریب خیال کیا جاتا تھا، اور یہ قربت اب تک برقرار ہے کیوں کہ مولانا کو یقین ہے کہ خان صاحب جلد دوبارہ اقتدار میں آنے والے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کی متنازع حرکتوں اور سیاسی ایجنڈے کی وجہ سے ان کے متاثرین اب ان کے ناقدین بنتے جا رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ان کے طرز تکلم اور فکر انگیز بیان کے دوران ان کے آنسو سننے والوں پر بھی رقت طاری کر دیا کرتے تھے، لیکن اب جب وہ آنسو نکالتے ہیں تو لوگ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں اور انکا تمسخر اڑاتے ہیں۔ اس وقت مولانا طارق جمیل ایک بار پھر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کی زد میں ہیں جسکی وجہ انکا مقامی میڈیا کو دیا گیا انٹرویو بنا۔ مولانا نے اس انٹرویو میں آنسو بہاتے ہوئے عمران خان حکومت کے خاتمے پر اظہار افسوس کیا اور کہا کہ خان صاحب کو گھر بھیجنے کے لیے اسمبلی ممبران کو خریدا گیا اور نئی حکومت بنائی گئی، انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ حکمران اللہ کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں، کیا یہ اللہ کے نبی کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا صارفین نے مولانا کی کلاس لیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شاید بھول گئے کہ عمران حکومت گرانے کے لئے صرف اتحادی جماعتوں نے ووٹ ڈالے تھے اور تحریک انصاف کے کسی بھی منحرف رکن نے اس تحریک میں اتحادی جماعتوں کا ساتھ نہیں دیا تھا لہذا ان کا ممبران خریدنے کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل تین منٹ کے ویڈیو کلپ میں مولانا طارق جمیل کو مزید کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی ماؤں نے اچھے ڈاکٹر پیدا کیے، اچھے سائنس دان، اچھے سکالر پیدا کیے ہیں لیکن کسی ماں نے آج تک ایسا سیاست دان نہیں پیدا کیا جو کہے مجھے اپنے نبؐی کے طریقے پر نظام حکومت چلانا ہے، اگر نہیں چلاؤں گا تو حکومت چھوڑ دوں گا۔ مولانا یہ باتیں کرتے وقت آنسو بہا رہے تھے اور ان کا اشارہ عمران کی جانب تھا۔ تاہم سوشل میڈیا صارفین نے مولانا کے آنسوؤں کو مگر مچھ کے آنسو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک فراڈیا ملا دوسرے فراڈیے کی حکومت جانے پر آنسو بہا کر دراصل اس کی خوشامد کر رہا ہے جو کہ موصوف کا پرانا طریقہ واردات ہے۔ مولانا طارق جمیل نے اپنے انٹرویو میں فتوی ٰدیا کہ عمران خان کو ہٹا کر برسراقتدار آنے والے بادشاہ اور فقیر روز محشر اپنے کیے کا حساب دیں گے اور وہ لوگ جو آج خود کو بہت کچھ سمجھ رہے ہیں، ان کے ہاتھ سر کے پیچھے بندھے ہوں گے۔ تب اللہ ان سے سوال کرے گا کہ بتاؤ تم لوگوں نے حکومت چھین کر کیا حاصل کیا۔ پھر سب بدبخت حکمران اور انکے ساتھی انہی بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ جہنم میں چلے جائیں گے۔ لیکن سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے مولانا کو شٹ اپ کال دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جنت اور دوزخ کے فیصلے کرنے سے باز آ جائیں اور اپنی آخرت کی سوچیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے وہ خود دوزخ کی آگ میں جل جائیں۔

یاد رہے کہ مولانا طارق جمیل کی یہ ویڈیو تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے وائرل کی گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف نے ان بیان پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ مولانا !آپ کے تازہ سیاسی خیالات اور رویے سے سخت اختلاف کے باوجود ذاتی تعلق کے باعث احتراماً میں نے کبھی آپ کے خلاف بات کی ناہی سُنی۔ لیکن آپ کا تازہ بیان حقائق کے منافی اور بلا تحقیق و ثبوت ہے، وضاحت درکارہو تو میں حاضر ہو کر پیش کر سکتا ہوں، آپ نے غلط بیانی کی ہے کیوں کہ عمران خان کو نکالنے کے لیے ایک بھی رکن اسمبلی نہیں خریدا گیا۔ لیکن دوسری جانب تحریک انصاف کے آفیشل پیج نے اس کیپشن کے ساتھ طارق جمیل کی ویڈیو شیئر کی کہ: جنہوں نے انسانوں کو خرید کر حکومت بنائی وہ قیامت کے دن کیسے سامنا کریں گے؟

کینیڈین گلوکار جسٹن بیبر کے چہرے کا فالج بگڑ گیا

اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر مولانا طارق جمیل کا ایک آڈیو میسج بھی وائرل ہے جس میں وہ مولانا عثمانی کو یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ میں نے تمہیں شریفوں سے دوری اختیار کرنے کے لیے کہا تھا لیکن تم نے حمزہ شہباز سے ملاقات کرکے میری حکم ادولی کی ہے لہذا اب نہ کبھی مجھے فون کرنا اور نہ ہی کبھی مجھے اپنی شکل دکھانا۔ اس معاملے میں سینئر صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ بطور صحافی وہ مولانا طارق جمیل کو ایک سیاسی مولوی سمجھتے ہیں جنہیں اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کا شوق ہے۔ اسی لیے میں نے انہیں ہمیشہ نواز شریف، پرویز مشرف اور عمران خان تینوں کے ادوار حکومت میں انکی تعریفیں کرتے دیکھا ہے۔ حامد میر کہتے ہیں کہ میری رائے میں علمائے دین کبھی حکمرانوں کے درباری نہیں بنتے۔ لیکن مجھے یاد نہیں کہ مولانا نے حاکموں کی شان بیان کرنے کے علاوہ کوئی اور کام کیا ہو؟ مولانا طارق جمیل کی شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ان کی خاص بات ہر حکمران وقت کی محبت میں گرفتار ہونا اور اسکا قرب حاصل کرنا ہے۔ اعزاز ہو تو ایسا، مقبولیت ہو تو ایسی، وہ جہاں جاتے ہیں دروازے کھل جاتے ہیں، ہر جگہ انہیں خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ وہ نواز شریف کے ہاں جائیں تو وہ صدقے واری جاتے ہیں، عمران خان سے ملنے جائیں تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ سب ان کو مانتے ہیں اور سبھی ان کی مانتے ہیں۔ گجرات کے چودھری ہوں، جاتی امرا کے شریف ہوں، بنی گالہ کے نیازی ہوں یا پھر طاقتور حلقے، سب گھروں میں نہ صرف ان کا آنا جانا ہے بلکہ وہاں ان کی مانی بھی جاتی ہے۔ پورے پاکستان میں ان جیسا متفق علیہ کوئی اور نہیں جس کی عزت فوج والے بھی کرتے ہیں، پولیس والے بھی، فنکار بھی اور کرکٹر بھی۔ نواز شریف اور عمران خان ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے مگر حضرت مولانا کے لئے دونوں آنکھیں بچھاتے ہیں۔ ملا حضرات اور شعبے سٹارز کے طرزِ زندگی اور اندازِ فکر میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر طارق جمیل کے لئے دونوں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، پنجگانہ نماز پڑھنے والے باریش و باحیا بزرگ ہوں یا اسٹیج و تھیٹر پر جلوہ گر ہونے والی حسینائیں، سب ان کے دست پر بیعت کو سعادت سمجھتی ہیں۔

معروف مصنف اور لکھاری محمد حنیف کا کہنا ہے کہ مولانا طارق جمیل گنہگاروں اور دنیا داروں کے مولانا ہیں کیونکہ جو صالح ہیں انھیں تبلیغ کی کیا ضرورت ہے۔ انکے بقول سیاسی نفرتوں میں بٹے اس معاشرے میں شاید طارق جمیل واحد عالم دین ہیں جو عمران خان کے ڈرائنگ روم میں افطاری کرنے کے بعد نماز کی امامت بھی کر لیتے ہیں اور مرحومہ کلثوم نواز کی نماز جنازہ بھی پڑھا لیتے ہیں۔ معاشرے کو یقیناً ایسی ہی پہنچی ہوئی شخصیتوں کی ضرورت ہے جو فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر ہر جانب برکتیں بانٹ سکیں۔

Related Articles

Back to top button