PTIمشکل میں، آئندہ انتخابات میں کراچی کس کا ہو گا؟

انتخابات کی تاریخ دیے جانے کے بعد سیاسی جماعتوں کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور ہر سیاسی جماعت اگلے انتخابات میں کامیاب ہونے کے لیے کوشاں ہے۔تاہم یہ انتخابات ماضی کی طرح نہیں ہوں گے جن کے بارے میں پہلے سے ہی یہ معلوم ہوتا تھا کہ کون سی جماعت کامیاب ہو گی کیوںکہ ان انتخابات میں اگر ایک جانب پاکستان تحریکِ انصاف سیاسی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے تو دوسری جانب دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی یہ معرکہ سر کرنا آسان نہیں ہے۔

ان حالات میں پی ٹی آئی نے ایک بار پھر کراچی میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی کامیابی پارٹی کارکنوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کر سکتی ہے۔پارٹی سربراہ عمران خان سمیت مرکزی رہنماؤں کے جیل اور روپوشی میں ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا جلسہ کامیاب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔پی ٹی آئی کراچی کی قیادت کی جانب سے 12 نومبر کو کراچی میں ڈالمیا کے مقام پر عوامی جلسے کا اعلان کیا گیا ہے۔روپوشی میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو اس جلسے میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں۔شہر میں پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں اور تقریباً تمام ہی دفاتر بند ہیں، ایسے میں پی ٹی آئی اس جلسے کو کیسے کامیاب بنائے گی؟ یہ اس کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

تاہم سوال پیدا ہوتاہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد کراچی پر کون حکمرانی کرے گا؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دیتے ہوئے شہر میں موجود تمام ہی چھوٹی بڑی جماعتیں خود کو کراچی کی نمائندہ قرار دیتی ہیں۔
کراچی پر گذشتہ کئی دہائیوں سے حکمرانی کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ الزام عائد کرتی ہے کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں ان سے مینڈیٹ چھین کر پی ٹی آئی کو دیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما سید مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ کراچی میں رہنے والے اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ سنہ 2018 میں پی ٹی آئی کو کیسے نشستیں ملیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تحریک انصاف نے کراچی کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ شہر کی حالت بہتر کرنے کے بجائے اسے پیپلز پارٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ کراچی سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ اب کراچی کے عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے اور متحدہ کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کروائیں گے۔‘
صوبے میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک حکمرانی کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے صدر اور سابق صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ ’کراچی کے عوام اب ترقی چاہتے ہیں اور اس سفر کے لیے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف دیکھ رہے ہیں جس کی مثال بلدیاتی انتخابات کے نتائج کی صورت میں سب کے سامنے موجود ہے۔ صوبے بھر سے پارٹی میں رہنماؤں اور کارکنوں کے شامل ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام ترقی کے سفر کو تیز کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کا ہی ساتھ دیں گے۔‘

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمنٰ کا مؤقف ہے کہ ’شہر میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے گٹھ جوڑ سے عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے، عوام کرپٹ اور مفاد پرست ٹولے سے چھٹکارا چاہتی ہے۔ میئر کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کا چہرہ بے نقاب ہو گیا ہے۔ سندھ میں بسنے والے لوگ یہ ادراک کر چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی ان کے مسائل کو حل نہیں کرسکتی۔‘
ایم کیو ایم لندن کے رہنما مصطفیٰ عزیز آبادی کے مطابق کراچی کے رہنے والے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے ساتھ ہیں۔ شہر میں ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے اعلان پر ووٹنگ کم ہونا ثابت کرتا ہے کہ اہل کراچی الطاف حسین کے ساتھ ہیں۔
سنہ 2018 میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی کراچی سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ’بدترین حالات ہونے کے باوجود سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کراچی سے خیبر تک عمران خان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ کراچی نے 2013 کے عام انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا اور 2018 میں بھی عمران خان کو ہی ووٹ دیا تھا۔‘پی ٹی آئی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ’آئندہ برس عام انتخابات میں بھی پاکستان تحریک انصاف ہی کراچی سے کامیاب ہو گی۔‘

واضح رہے کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے کراچی سے قومی اسمبلی کی 14 نشستیں حاصل کی تھیں ۔ کیاپی ٹی آئی ایک بار پھر کراچی سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمدکا کہنا ہےکہ اس سوال کا جواب تو عام انتخابات کے بعد ہی مل سکے گا، شہر میں اپنا اثر و رسوخ رکھنے والی سیاسی قوتیں اب عوام کو اپنے قریب لانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں سیاسی خلا ہونے کے باعث تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ کراچی پر ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان، تحریک انصاف کے کمزور ہونے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں جس کے لیے ماضی میں شہر کی اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیات کو ساتھ ملایا جا رہا ہے۔‘

Related Articles

Back to top button