نئی حکومت کے اعلان کے باوجود طالبان امیر ملا ہیبت اللہ غائب


طالبان نے افغانستان کی نئی حکومت کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے منظر عام پر نہ آنے کے حوالے سے سوالات کا سلسلہ جاری ہے۔
کابل میں بی بی سی کے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان نے افغانستان کی نئی کابینہ تو تشکیل دے دی ہے لیکن نہ تو ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی کوئی خبر آئی ہے اور نہ ہی وہ خود سامنے آئے ہیں۔ بی بی سی کے نمائندے مدثر ملک کابل میں پاکستانی ایمبیسی کے باہر 7 ستمبر کو ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے بارے میں لکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مظاہرین کی تعداد پانچ سو کے قریب تھی۔ دور سے ہمیں ان کے نعروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ’مرگ مرگ بر پاکستان‘ ععنی پاکستان مردہ باد۔ یہ لوگ مسلسل نعرے لگائے جا رہے تھے اور یہ بھی سوال کر رہے تھے کہ آئی ایس آئی کے چیف کابل کیا لینے آئے تھے۔ مدثر کہتے ہیں کہ کابل میں ایسے مظاہرے کوئی نئی بات نہیں، مختلف فورمز پر لوگ اکثر پاکستان کے خلاف بات کرتے رہتے ہیں لیکن میں نے ایسا مظاہرہ کابل میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ایک عورت نے کہا پاکستان خود سامنے نہیں آتا، آج کے حکمران طالبان پاکستان کے مدرسوں میں پڑھے ہیں اور ان کی ٹریننگ وہاں کی گئی ہے۔ مظاہرے میں طالبان کی کئی گاڑیاں اور پیدل اہلکار مسلسل مظاہرین کو سائرن بجا کر، بندوقیں تان کر اور گاڑی ان کے بالکل قریب لا کر جیسے ابھی ان پر چڑھا دیں گے، انھیں منتشر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ طالبان انہیں کہہ رہے تھے کہ ’نکلو، یہاں سے جاؤ‘ اور مظاہرین کو دھکے دے رہے تھے۔ اس مظاہرے میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں تھی۔ طالبان ان پر بندوقیں تان کر انھیں ڈرا رہے تھے۔ ہمیں بھی راستے میں روکا بھی جا رہا تھا، طالبان کی طرف سے بھی اور دوسرا ہمیں سکیورٹی کے حوالے سے داعش کے حملے کا خدشہ بھی تھا۔
مدثر بتاتے ہیں کہ گھڑی پر ساڑھے بارہ بجنے کو تھے اور مظاہرین ایرانی سفارتخانے کے پاس سے ہوتے ہوئے صدارتی محل کے باہر پہنچ چکے تھے۔ میں سائرن بجاتے طالبان کے سپیشل سکواڈ کو فلم بند کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔اسی دوران اس قدر شدید فائرنگ کی گئی کہ لوگ ڈر کر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ مجھے خواتین بھاگتی ہوئی دکھائی دیں، اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو چھوڑ کر محفوظ جگہ کی تلاش میں بھاگتے لوگ نظر آئے۔ میں نے ایک شخص کو خواتین کے لیے اپنے گھر کا دروازہ کھولتے بھی دیکھا تا کہ وہ وہاں پناہ لے پائیں۔ کچھ آگے بڑھا تو ایک طالب نے میرا فون چھین لیا اور مجھے کہا ’بس کرو، تم ہمارے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہو۔ بند کرو یہ ویڈیو۔‘ اس نے مجھے کہا کہ میں تمھارا موبائل توڑ دوں گا۔ خیر میں نے اپنا اجازت نامہ دکھایا اور منت سماجت کر کے فون واپس لیا۔
بی بی سی کے نمائندے کے مطابق مظاہرے کے دوران جب میں لوگوں سے بات کر رہا تھا تو مظاہرین میں سے ایک نے مجھے دیکھ کر نہایت غصے سے کہا ’تم پاکستانی یہاں سے دفع کیوں نہیں ہو جاتے، چلے جاؤ۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ابھی ہمیں ہوٹل واپس آئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پتہ چلا کہ ذبیح اللہ مجاہد اہم پریس کانفرنس کریں گے۔ پریس کانفرنس سے پہلے بہت سخت چیکنگ کی گئی اور ہال میں بالکل خاموشی تھی۔ جب بڑے منظم طریقے سے چیکنگ ہوئی اور صحافیوں کی کرسیوں کی لائن کے آگے صوفے لگائے گئے تو ہم نے سوچا کہ آج واقعی کوئی آ رہا ہے۔ اس کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عبوری حکومت کا اعلان کیا۔ لیخن ایک بار پھر امیر ہبت اللہ کا نام غائب تھا۔ 33 وزرا پر مشتمل اس کابینہ میں 17 لوگ یعنی وزیراعظم سمیت آدھی کابینہ اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں ہے۔ یہ سوال بار بار پوچھا گیا کہ ملا ہبت اللہ کہاں ہیں؟ اس کا جواب گھوم پھر کر یہی ملا کہ وہ ’ادھر ہی ہیں، ادھر ہی ہیں۔‘ پریس کانفرنس کے بعد سب صحافی منتشر ہو گئے، لیکن اس سوال کے ساتھ کہ ساری کابینہ تو بن گئی لیکن طالبان کے امیر ہبت اللہ کی نہ کوئی خبر آئی اور نہ ہی تصویر۔

Related Articles

Back to top button