بلدیہ فیکٹری میں 264 جانیں لینے والے ٹانگے کیوں نہیں گئے؟

ایم کیو ایم کو بھتہ نہ دینے پر کراچی کے بلدیہ ٹائون کی ڈینم فیکٹری میں بھیانک آگ لگا کر 264 انسانوں کو زندہ جلانے والے دو سفاک قاتل سزائے موت سنائے جانے کے باوجود فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرکے سزا سے بچے ہوئے ہیں اور عدالت بھی حسب روایت تاریخ پر تاریخ دیتی جا رہی ہے۔ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع علی انٹرپرائیزز نامی ڈینم فیکٹری میں 11 ستمبر 2012 کو بھڑکنے والی آگ میں جھلس کر 260 مزدور ہلاک اور 50 سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے تھے، مقدمے میں سزا یافتہ ملزمان کی اپیلیں 21 ماہ سے زیر سماعت ہیں، آٹھ سال بعد 2020 میں عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔ ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایم کیو ایم کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کے حکم پر بھتے کی ادائیگی نہ ہونے پر فیکٹری میں آگ لگائی، مقدمے میں 400 گواہوں سمیت تمام فرانزک ثبوت بھی پیش کیے گئے۔

جے آئی ٹی کو اپنے بیان میں فیکٹری کے اکاؤنٹنٹ نے بتایا تھا کہ اس روز رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب انہیں دفتر سے ایک فائل لانے کے لیے کہا گیا جو گودام کے پاس واقع تھی، وہاں پہنچ کر انہوں نے ایک عجیب سی بُو محسوس کی، وہ باہر آئے تو آگ لگتے اور پلک جھپکنے میں شعلے بلند ہوتے دیکھے، پروڈکشن منیجر کے مطابق اکاؤنٹنٹ کے چیخنے پر جب وہ دفتر سے باہر آئے تو آگ پھیل چکی تھی۔ اکاؤنٹنٹ کو فائر بریگیڈ لانے کے لیے بھجوایا جو ڈیڑھ گھنٹے بعد بھی نہیں پہنچی۔

بلدیہ فیکٹری میں 264 جانیں لینے والے ٹانگے کیوں نہیں گئے؟

آگ لگانے کے الزام پر سزائے موت پانے والے مرکزی ملزم زبیر عرف چریا کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق زبیر فیکٹری کا ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کا کارکن بھی تھا اور فیکٹری میں اس کا کافی اثرورسوخ تھا۔ رپورٹ کے مطابق جس دن فیکٹری میں آگ لگی زبیر عرف چریا پانچ افراد کے ساتھ گودام کے دروازے پر موجود تھا اور ’چرس بھرے سگریٹ‘ بنا رہا تھا۔ وہیں اس نے کالے رنگ کے کچھ شاپنگ بیگ اپنے ساتھیوں کو دیے اور سب نے گودام کے اندر الگ الگ جگہوں پر آتش گیر مادے سے بھرے ہوئے یہ بیگ پھینک دیے۔ پانچ سے 10 سیکنڈ میں فیکٹری کو آگ لگ چکی تھی۔ ایف آئی آر درج ہوئی تو اس کا متن یہ تھا کہ یہ حادثاتی طور پر لگی لیکن لوگ فیکٹری میں حفاظتی سہولیات نہ ہونے کے باعث مارے گئے، عمارت میں نکلنے کے لیے ایمرجنسی راستے نہیں تھے، آگ لگانے کی وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا 20 کروڑ روپے کا بھتہ تھا جو انہوں نے ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

تحقیقاتی ٹیموں نے ملزمان کی نشاندہی کرنے کے بعد دسمبر 2016 میں عبدالرحمٰن عرف بھولا کو بینکاک سے گرفتار کیا۔ مقدمہ پہلے سٹی کورٹ میں چلا پھر سپریم کورٹ کی ہدایات پر اس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوئی۔ عدالت نے ملزمان عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت 264 افراد کے قتل میں 264 مرتبہ سزائے موت اور دو، دو لاکھ روپے جرمانہ کی سزائیں سنائیں۔ ملزمان بھولا اور چریا اب پولیس کی تحویل میں ہیں اور انکی سزا کے خلاف اپیل دو برس سے سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ سندھ حکومت نے کیس میں نامزد سابق وزیر سندھ رؤف صدیقی سمیت چار ملزمان کی بریت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ جب سزائے موت کے فیصلے کے خلاف بھولا اور چریا کی اپیلیں سماعت کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں مقرر کی گئیں تو تب دو ججز نے ملزمان کی بریت کے خلاف اپیلیں دائر نہ کرنے کیخلاف پراسیکیوشن پر ناراضگی کا اظہار کیا جس کے بعد اس فیصلے کو سندھ حکومت کی جانب سے چیلنج کیا گیا، اپیلوں پر آخری بار سماعت 26 اگست 2022 کو ہوئی تھی جو بغیر کارروائی کے چھ ہفتے کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

Related Articles

Back to top button