غریبوں کیلئے مفت آٹا سکیم حکومت کے گلے کیوں پڑ گئی؟

وفاقی حکومت کی جانب سے ماہ رمضان میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے شروع کی گئی مفت آٹا سکیم میں جس قدر جانی نقصان اور بدنظمی کی مثالیں قائم ہوئی ہیں، یہ سکیم حکومتی ریلیف کی بجائے الٹا اس کے گلے پڑ گئی ہے۔سکیم کے مطابق ہر خاندان کو ایک مہینے میں تین آٹے کے تھیلے مفت دیئے جا رہے ہیں جبکہ ہر تھیلے میں دس کلو کے قریب آٹے کی مقدار ہے۔
اس سکیم کو رمضان سے قبل ہی شروع کر دیا گیا تھا، سکیم کے شروع ہوتے ہے ملک کے طول عرض سے ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جس میں ہزاروں افراد آٹا لینے کے لئے گتھم گتھا ہیں، ان مناظر نے سوشل میڈیا اور بعد ازاں بین الاقوامی میڈیا کی توجہ بھی حاصل کرلی۔
ملک میں آٹے کی مفت سکیم کے دوران کئی مقامات پر بھگدڑ کے واقعات بھی دیکھنے کو ملے اور اس بھگدڑ میں کئی افراد اپنی جان سے گئے، اس سکیم کے پہلے 20 دنوں میں اب تک چھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں پانچ کا تعلق پنجاب جبکہ ایک شخص کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے،
اس بات کو سمجھنے کے لیے عوام میں مفت آٹے کی اس سکیم میں چھ افراد جان سے گئے اور غلطی کس جگہ پر ہوئی، اردو نیوز نے یہ سوال ماہرین کے سامنے رکھا۔2010 کے سیلاب میں ہلال احمر کے ساتھ متاثرین میں مفت راشن تقسیم کے انچارج عبدالرؤف انجم کہتے ہیں کہ اس بات کو محض ایک جملے سے نہیں سمجھا جا سکتا کہ ایسے مواقع جہاں عوام کا جم غفیر ہو انتظامات پر غلطی کہاں پر ہو سکتی ہے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتاتا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات ذہن سے نکال دی جائے کہ ایسی کوئی بھی سکیم فول پروف ہو سکتی ہے، رمضان کی اس سکیم کا ایک مشکل پہلو یہ ہے کہ یہ انتہائی کم وقت میں اور انتہائی کم وقت کے لیے شروع کی گئی ہے یہی اس کی بڑی خامی ہے اگر دور اندیشی سے اس سکیم پر کام چار سے پانچ مہینے پہلے شروع ہو جاتا تو صورت حال موجودہ سے مختلف ہوتی۔
ٹرک کہاں کھڑے کرنے ہیں اور ٹرکوں کو لوگوں کی نظروں سے کتنا دور رکھنا ہے اور قطاریں کیسے بنوانی ہیں۔ جہاں جہاں لوگوں نے ٹرکوں پر دھاوا بولا ہے ان واقعات کی تحقیقات کریں تو پتا چلے گا کہ جن افراد کے نام کسی بھی وجہ سے فہرستوں میں نہیں تھے جب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی اور ان کی آنکھوں کے سامنے بھرا ٹرک آٹے کا کھڑا ہے جس میں ان کے لیے کچھ نہیں تو آپ ان کو نہیں روک پائیں گے۔
سب سے زیادہ پانچ ہلاکتیں پنجاب میں دیکھنے کو ملیں جن میں دو خواتین بھی ہیں۔ تاہم پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ ان میں تین افراد پہلے ہی دل کے مریض تھے وہ دھکم پیل کے باعث ہلاک نہیں ہوئے، صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے اردو نیوز کو بتایا کہ سکیم کے پہلے چند دنوں میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ مشکلات دیکھنے کو آئیں، لیکن اب تمام آٹا سنٹرز پر صورت حال بالکل معمول کے مطابق ہے۔ نہ تو بھگدڑ کا واقع ہوا ہے نہ کوئی دھکم پیل۔ تمام سنٹرز پر آٹا وافر مقدار میں موجود ہے۔ سوشل میڈیا نے معاملات کو زیادہ سنسنی خیز بنا کر پیش کیا۔ واقعات ضرور ہوئے ہیں لیکن جیسے بتایا گیا کہ درجنوں لوگ ہلاک ہوئے ایسا نہیں ہے۔ لوگوں کی طبعی موت کو بھگدڑ کے باعث موت بنا کر پیش کیا جاتا رہا جو کہ مناسب نہیں تھا۔
آٹا سنٹرز پر آنے والے زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کو مفت آٹا دینے کے بجائے یوٹیلیٹی سٹورز پر سستا آٹا دینا چاہئے تھا، ماڈل ٹاون مفت آٹا سنٹر پر آئے ہوئے ایک نوجوان محمد اکبر نے بتایا کہ اس وقت مارکیٹ دس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1100 سے بھی تجاوز کر چکی ہے، اس لیے لوگ مفت آٹے کی طرف بھاگے ہیں اگر حکومت مفت کے بجائے آٹے کی قیمت کی نیچے لے آئے اور پانچ سو یا چار سو روپے میں دس کلو آٹے کا تھیلا ملے تو ایک تو بھگدڑ نہیں ہو گی دوسرا جو اب رمضان کے بعد پھر آٹا مہنگا ملے گا، اس کا بھی کوئی حل نکل آنا تھا، آٹا سنٹرز پر آئے زیادہ تر لوگ سکیم کے بعد کی صورت پر زیادہ پریشان نظر آتے ہیں، عبدالرووف انجم بھی اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ سبسڈی سے انتظامی طور پر چیزیں زیادہ بہتر ہو سکتی تھیں۔
آپ نے دیکھا کراچی میں جو واقع ہوا اس میں کتنے افراد کی ہلاکت ہوئی حالانکہ وہ مفت آٹا سنٹر نہیں تھا کوئی نجی طور پر لوگوں میں عید اور راشن تقسیم کر رہا تھا، لیکن تربیت نہ ہونے کی وجہ سے کتنے لوگ جان سے گئے۔ مفت تقسیم کے لیے تربیت اور وقت سے پہلے کام کرنا ضروری ہے، ہاں فوری سکیموں کیلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ سبسڈی پر توجہ دے۔

فلم ’’جاوید اقبال‘‘ کا نیا نام ’’ککڑی‘‘ رکھ دیا گیا

 

Related Articles

Back to top button