ججوں نے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو وزیراعلیٰ کیسے بنایا؟

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ نے پریذائیڈنگ آفیسر کا کردار ادا کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی دوبارہ کاؤنٹنگ کر کے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیئے جانے والے پرویزالہٰی کو حمزہ شہباز کی جگہ پنجاب کا نیا وزیراعلیٰ مقرر کیا ہے۔ ماضی میں ہمیشہ عدلیہ کا یہ موقف رہا ہے کہ عدالت کو پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ اسی لئے یوسف رضا گیلانی نے جب چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اپنے سات ووٹ مسترد کیے جانے کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی یہی فیصلہ دیا تھا کہ عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی تاہم چیف جسٹس بندیال نے اس اعتراض پر یہ موقف اپنایا کہ عدالت نے اس سے پہلے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ کو بھی غیر آئینی قرار دیا تھا لیکن ایسا کہتے ہوئے وہ شاید بھول گئے کہ قاسم سوری نے سراسر آئین شکنی کی تھی اور وہ خود اپنے فیصلے میں اس اقدام کو غیرآئینی اور غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔
پرویز الہٰی کی دائر کردہ درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے 26 جولائی کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آرٹیکل 63 اے پر فوکس کرنے کی بجائے نہ صرف پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کا فیصلہ معطل کر دیا بلکہ پریذائیڈنگ آفیسر کا کردار ادا کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے مدمقابل پرویزالہٰی کے دس ووٹ بڑھا دیئے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت کسی بھی صورت پارلیمانی معاملات میں پریزائیڈنگ آفیسر کا کردار ادا نہیں کرسکتی، ان کے مطابق سپریم کورٹ کو اگر قاف لیگ کے دس ووٹ کاؤنٹ کروانے بھی تھے تو وہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کو ہدایت کر سکتی تھی یا دوبارہ سے الیکشن کروانے کا حکم دے سکتی تھی لیکن وہ خود یہ فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں تھی۔ ایسا کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے میں صرف اپنی اختیارات سے تجاوز کیا ہے بلکہ پارلیمنٹ کے اختیار پر بھی ڈاکہ ڈالا ہے، اسی لئے نواز لیگ نے چیف جسٹس بندیال کے فیصلے کو آئین کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں کس نے چھپا رکھا تھا؟

یاد رہے کہ اس سے پہلے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے وکیل اور حکومتی وکلاء نے سپریم کورٹ کی جانب سے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ مسترد ہونے پر عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا تھا، لہٰذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ نے ایک وزیراعلیٰ کا تقرر کیا ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ پہلے دن سے ہی سپریم کورٹ حمزہ شہباز کو ہٹانے اور پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ بنانے کے موڈ میں نظر آ رہی تھی اور اس کی یہ خواہش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ پرویزالہٰی کی پنجاب اسمبلی میں صرف دس سیٹیں ہیں اور وہ بھی اب متنازعہ ہو چکی ہیں لیکن موصوف اب عمران خان کے کاندھوں پر سوار ہو کر پنجاب کے وزیراعلیٰ بن چکے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہے اور پرویزالہٰی عمران خان کے اتحادی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں عمران خان پرویزالہٰی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دے چکے ہیں، تاہم نئے وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے مونس الہٰی کا اصرار ہے کہ عمران خان پرویز الہٰی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہنے پر معافی مانگ چکے ہیں، مونس الہٰی نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ جب عمران ہمارے گھر آئے تھے تو باقاعدہ میرے والد چودھری پرویز الہٰی سے انہیں ڈاکو کہنے پر معافی مانگی تھی۔
دوسری جانب پرویز الٰہٰی کے وزیراعلیٰ پنجاب بن جانے کے بعد اب سپریم کورٹ کا نرالا فیصلہ تنقید کی زد میں ہے، سینئر کوٹ رپورٹر عبدالقیوم صدیقی کا کہنا ہے کہ فیصلہ سناتے وقت چیف جسٹس عمر عطا بندیال سخت غصے میں دکھائی دیتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی چاکری کرنے والے عمرانڈو جج عمر عطا بندیال نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی کی درخواست منظور کی جاتی ہے کیونکہ ڈپٹی اسپیکر نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح درست نہیں کی تھی، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ پرویز الہیٰ وزیراعلیٰ پنجاب قرار دیئے جاتے ہیں اور چیف سیکریٹری فوری طور پر پرویز الہٰی کی بطور وزیراعلیٰ تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کرے۔ انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز کی بنائی گئی کابینہ تحلیل کر دی گئی ہے اور ان کے لگائے ہوئے تمام مشیران اور معاونین کو بھی فارغ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی حکم دیا کہ پرویز الہٰی کو رات ساڑھے گیارہ بجے وزیراعلیٰ کا حلف دیا جائے اور اگر گورنر ایسا کرنے سے انکار کریں تو صدر عارف علوی حلف دلوائیں چنانچہ حسب توقع گورنر پنجاب کی جانب سے حلف دلوانے سے انکار کے بعد پرویزالہٰی ملک ریاض حسین کے جہاز پر اسلام آباد روانہ ہوئے اور رات ڈھائی بجے بطور وزیراعلیٰ حلف اٹھا لیا۔
عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل اور ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کے وکیل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو پارلیمانی معاملات میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے، ویسے بھی ایسا فیصلہ جس کے نتیجے میں پارلیمان میں اقلیت کے ہاتھوں اکثریت کو گرا دیا جائے، سراسر مداخلت ہے جو ہمیں ہرگز قبول نہیں، انکا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پارلیمان میں اکثریت کو اقلیت کا ہاتھوں یرغمال نہیں بنا سکتی۔
عرفان قادر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کا معاملہ آیا تو اسے 10 جج سن رہے تھے اور یہاں پورے پاکستان کا مسئلہ تھا لیکن پھر بھی فل کورٹ نہیں بنائی گئی کیونکہ ججوں کے اپنے پر جلتے تھے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ پرویزالہٰی کتنا عرصہ پنجاب کے وزیراعلیٰ رہتے ہیں چونکہ ان کی جماعت کے مرکزی صدر چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے قاف لیگ کے دس منحرف اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی کا ریفرنس دائر کرنے کا قوی امکان موجود ہے۔

Related Articles

Back to top button