فیض حمید کی غلط پالیسیاں عوام کیسے بھگت رہے ہیں؟

پہلے بطور آئی ایس آئی چیف اور پھر بطور کور کمانڈر پشاور پاکستانی فوجی قیادت کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اب خود تو بہاولپور کور سنبھال کر بیٹھ گئے ہیں لیکن انکے غلط مشوروں اور پالیسیوں کے نتائج اب قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے عوام طالبان کی واپسی اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کہ 2014 میں پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد پارلیمنٹ کے ذریعے تشکیل دیے جانے والے نیشنل ایکشن پلان کے تحت طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخواہ میں آپریشن شروع کیا گیا۔ تاہم 2018 میں عمران خان برسر اقتدار آئے تو انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو اچانک آئی ایس آئی چیف کے عہدے سے ہٹا کر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو تعینات کر دیا جس کے بعد دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ طالبان دہشت گردوں سے مذاکرات کے فیصلے نے ریاست پاکستان کی جانب سے کمزوری کا تائثر دیا اور ایسا محسوس ہوا کہ شاید اب پاکستانی عسکری قیادت لڑنے کی بجائے صلح کرنے نے پر آمادہ ہو چکی ہے۔ لیکن عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی پالیسی عمران خان کے ایما پر اپنائی گئی جو اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی طالبان کے خلاف فوجی طاقت آزمانے کی بجائے صلح صفائی سے معاملات چلانے پر زور دیتے رہے تھے۔
اگست 2019 میں افغان طالبان کابل میں برسر اقتدار آئے تو پاکستان کی امیدوں کے برعکس انہوں نے تحریک طالبان کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کر دیا اور یہ مشورہ دیا کہ معاملات کو مذاکرات کے ساتھ سلجھانے کی کوشش کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھی افغان طالبان کی اس تجویز کی حمایت کی اور پھر افغانستان کے وزیر داخلہ کمانڈر سراج الدین کی ثالثی میں تحریک طالبان نے جون 2022 میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ساتھ غیر معینہ مدت کے لیے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ اس جنگ بندی کا مقصد حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان پچھلے نومبر 2022 میں افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والے امن مذاکرات کو کامیاب بنانا تھا جس میں کئی ماہ کی خاموشی کے بعد اس سال مئی میں اچانک تیزی دیکھنے میں آئی۔
اس دوران پاکستانی فوجی حکام نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی قیادت میں تحریک طالبان کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے کئی راؤنڈز کیے جن کے بعد ٹی ٹی پی کے درجنوں جنگجوؤں کو رہا بھی کردیا گیا۔ لیکن افغان طالبان کے مطالبات بڑھتے چلے گئے اور پھر انہوں نے فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ بھی کردیا جو کسی صورت قابل قبول نہیں تھا لہٰذا مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔ اسی دوران افغان دارالحکومت کابل میں القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری امریکی ڈرون حملے میں مارے گے جس کے چند روز بعد ایک اہم ٹی ٹی پی کمانڈر عمر خالد خراسانی بھی افغانستان میں ایک بم حملے میں مارے گئے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں پاکستانی طالبان کمانڈروں کے پے در پے پراسرار حملوں میں مارے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا کیونکہ پی ٹی بی کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں تیز ہوتی جا رہی تھیں۔ ستمبر 2022 کے آغاز سے تحریک طالبان نے دفاعی عنوان سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا ایک شدید سلسلہ شروع کیا جس سے مذاکرات اور جنگ بندی مزید بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس پیچیدہ صورتحال میں ٹی ٹی پی اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مذاکرات اور جنگ بندی سے متعلق خاموشی نے کئی سوالات جنم دیے ہیں، جس میں اہم سوال یہ ہے کہ فریقین کے ایک دوسرے کے خلاف حملوں کے الزامات کے باوجود مذاکرات کیسے جاری رہ سکتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکراتی عمل جاری رہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ثالث کامکردار ادا کرنے والے افغان طالبان نہ تو پاکستان کو ناراض کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی تحریک طالبان کو اور اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ مذاکرات ٹوٹ جائیں۔ یعنی دونوں فریقین کے افغان طالبان سے ایسے مفادات جڑے ہوئے ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا ان کے لیے ممکن نہیں اور اسی مجبوری کے تحت وہ ایسے اقدامات سے گریزاں ہیں کہ وہ افغان طالبان کی نوزائیدہ حکومت کے لیے مشکلات کا سبب نہ بنیں۔ یہی وجہ تھی کہ ٹی ٹی پی، افغان طالبان کی تجویز پر ان مذاکرات کا حصہ بنی کیونکہ افغان طالبان سے فکری وابستگی، افغان طالبان پر انحصار اور اس کے مقابل ایک کمزور عسکری قوت ہونے کی وجہ سے تحریک طالبان کے لیے یہ تجویز رد کرنا ممکن نہ تھا۔
دوسری طرف افغان سرزمین سے ماضی میں پاکستان کو درپیش خطرات کی ایک طویل تاریخ کی وجہ سے پاکستان کو افغان طالبان کے علاوہ کابل کی حکمرانی کے لیے کوئی دوسرا متبادل دستیاب نہیں۔ اس لیے پاکستان کی بھر پور کوشش ہے ٹی ٹی پی سمیت تمام مشکلات سے ایسی حکمت عملی کے ذریعے نمٹا جائے جس سے افغانستان پر طالبان کے اقتدار کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔ ایسی صورتحال میں پاکستان اگر افغان طالبان کی حکومت کے لیے اپنی حمایت کو ان کی پاکستان مخالف ٹی ٹی پی کے خلاف انتہائی اقدام سے مشروط کرتا ہے تو اس سے اندرونی طور پر طالبان کے ٹوٹنے کے خطرات ہیں، جس سے ملک پر طالبان کا قبضہ قائم رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔اس خطرے کی وجہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے جنگجوؤں کا دیرینہ تعلق ہے جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔
افغان امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر ایمن الظواہری اور کمانڈر عمر خالد خراسانی کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہے چونکہ یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ان حملوں کے لیے امریکی سی آئی اے نے پاکستانی سرزمین کا استعمال کیا۔ پاکستان نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جانب سے پاکستانی فوجی قیادت کو پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرنے کا فیصلہ ہی غلط تھا کیونکہ دہشت گردی کا توڑ موئثر فوجی کارروائی ہے، مذاکرات نہیں۔

Related Articles

Back to top button