بوجھل دل کے ساتھ ایک کالم

تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ 

میرے دوستوں اور جاننے والوں میں ہر ’’قماش‘‘ کے لوگ شامل ہیں۔ ان میں شاعر بھی ہیں، کہانی کار بھی ،موسیقار بھی،استاد بھی بلکہ ’’بہت استاد بھی‘‘ عالم ہیں، سیاست دان ہیں، صاحبانِ اقتدار بھی ہیں۔ درویش بھی ہیں، عیار بھی ،زاہد بھی ہیں، میخواربھی، ڈاکٹر بھی ، مریض بھی ، غرضیکہ پوری ورائٹی موجود ہے یہ دوست اندرون ملک اور بیرون ملک پھیلے ہوئے ہیں ان کے علاوہ فیس بک فرینڈ بھی ہیں، ان میں سے کسی کی ’’فیس ویلیو‘‘ ہے کسی کی نہیں، میں ہمہ وقت ان دوستوں کے درمیان رہتا ہوں ۔افضل عاجز ایک درویش منش انسان ہے گیت نگار ہے ، موسیقار ہے، کالم نگار ہے، اس نے عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کیلئے بہت سے گیت لکھے کچھ کی دھنیں بھی تیار کیں ،آج اس نے میری وال پر ایک بہت معنی خیز میسج بھیجا ہے جو کچھ یوں ہے ’’ہندوستان چاند پر کیا گیا، ہمارے ہاں ایک طبقے نے پاکستان پر جگتوں کا اسٹیج لگایا ہوا ہے اور پاکستان کو مخول بنانے میں لگے ہوئے ہیں ‘‘۔

ہندوستان کی معاشی ترقی اور دوسرے شعبوں میں پاکستان سے برتری، شک و شبہ سےباہر ہے ،ہم اس پر شرمندہ بھی ہو سکتے ہیں اور جگت بھی لگا سکتے ہیں مگر اب صورتحال مختلف ہے، پی ٹی آئی کے ’’چیتے‘‘ ان دنوں بالواسطہ طریقے سے ہندوستان کے قصیدے پڑھنے میں مشغول ہیں وہ ہزاروں مسلمانوں کے قاتل مودی کی امریکہ یاترا پر بے پناہ پذیرائی کی ویڈیو اپنا ایک ’’دینی فریضہ‘‘ کی وائرل کرتے رہے ہیں اور پاکستان پر ایک دوست کی طرح نہیں بلکہ ایک دشمن کی طرح آواز ے کستے ہیں، بیرون ملک ’’پاکستانی‘‘ آلِ یوتھ نے پاکستانی جھنڈا بھی اتارا اور اسے پائوں تلے بھی روندا ،انہیں اگر سر راہ کوئی ایسا پاکستانی مل جائے خواہ وہ مرد ہو یا کوئی معزز خاتون جوان کے سیاسی نظریے سے متعلق نہ ہو تو بدتمیزی کی انتہا کر دیتے ہیں ،بدتمیزی اس جماعت کا کلچر ہے یہ لاکھوں کروڑوں ووٹوں سے عوام کے منتخب سیاست دانوں پر آوازے کستے ہیں ان کے گھروں کے باہر کھڑے ہو کر گالیاں بکتے ہیں اور یہ سب کچھ انہوں نے اپنے لیڈر سے سیکھا ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے 9مئی کوجی ایچ کیو، کور کمانڈر ہائوس، کینٹ کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی فوجی تنصیبات پر حملے کئے، آگ لگائی، لوٹ مار کی، صرف یہی نہیں انہوں نے اُن شہدا کی یادگاروں پر بھی یلغارکی جنہوں نے ہمارے لئے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔

اوریہ سب کچھ اس کے بعد ہوا ہے جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ہی بنائی ہوئی حکومت کا مزید ساتھ دینے سے انکار کر دیا ،پہلے یہ اور ان کے لیڈر جنرل باجوہ کے قصیدے پڑھتے تھے اور اس شخص کو اس کی خدمات کے اعتراف میں اس کی مدت ملازمت میں توسیع بھی کی تھی مگر جب مزید تابعداری سے بوجوہ انکار کیاگیا اس کے بعد خود باجوہ پر فرانس کی ایک سڑک پر اسے اور اس کی بیوی کو ہراساں کیا گیا ۔یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس وقت سے اب تک یہ لوگ پاکستانی فوج پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں ۔انڈیا کے سامنے ہتھیار ڈالنا ایک ناقابل فراموش المیہ ہے ،اس سانحہ کے علاوہ بعض جرنیلوں کی کرپشن کو بھی عام کیا جا رہا ہے اور اس طرح کی دوسری تمام حرکات دہرائی جا رہی ہیں جس سے عوام کے دلوں میں فوج کیلئے نفرت پیدا ہو ۔اس نفرت کا نقطہ عروج 9مئی کو دیکھنے میں آیا جب فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاریں مسمار کی گئیں ،مجھے اس حوالے سے صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ آپ کو یکایک یہ سب باتیں یاد کیوں آئیں ۔قوم کے مختلف طبقات ایک پاکستانی کے طور پر کب سے اپنا نکتہ نظر پیش کرتے چلےآ رہے ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے تو اس موضوع پر ایک پوری دستا ویزی کتاب بھی لکھی مگر جب تک اسٹیبلشمنٹ نے آپ کو کاندھوں پر اٹھائے رکھا عمران خان اس کے قصیدے پڑھتے رہے مگر جب یہ بوجھ اٹھانا ممکن نہ رہا تو آپ کی نظروں میں آپ کا یہ محبوب ولن بن گیا ،صرف یہی نہیں بلکہ اگر آج یا کسی اور موقع پر اسٹیبلشمنٹ آپ کے لیڈر کے شوق ِاقتدار کو پورا کرنے کا سوچے تو آپ دوبارہ اس کے قصیدہ خواں بن جائیں گے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ آزمائش شرط ہے کیونکہ یہ آزمائش قوم کو ایک دفعہ پھر بڑی آزمائش میں ڈال دے گی۔

مجھے یہ کالم لکھتے ہوئے قطعاً خوشی نہیں ہو رہی مگر جب کوئی پاکستانی کسی پاکستانی سفارتخانے سے پاکستان کا جھنڈا اتار کر وہاں پی ٹی آئی کا جھنڈا لگا دے، پاکستانی پاسپورٹ پھاڑ کر اس کے اوراق کوڑے دان میں پھینک دے اور پی ٹی ا ٓئی کی لیڈر شپ تو کیا اس کے حامی بھی اس کی مذمت نہ کریں تو اس پر خاموش نہیں رہا جاسکتا۔میں آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ خدا ان کو ہدایت دے ۔یورپ اور امریکہ میں آباد پی ٹی آئی کے چہیتے ہم سے الگ اپنی دنیا بسا چکے ہیں اگر خدانخواستہ پاکستان کو نقصان پہنچا تو زد میں اپنی سرزمین سے پیار کرنے والے آئیں گے انہیں کچھ نہیں ہو گا شاید اسی لئے انڈیا ملک چھوڑنے والوں کے پاسپورٹ کینسل کر دیتا ہے اور یوں انہیں ویزا لیکر انڈیا آنا پڑتا ہے ۔

Related Articles

Back to top button