نجم سیٹھی کے پنڈی پلان کی اصل حقیقت کیا ہے؟


معروف صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے دعوی ٰکیا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ، شہباز حکومت اور عمران خان کے مذاکرات جاری ہیں جن کا بنیادی مقصد پنڈی پلان پر عمل درآمد کرانا ہے۔ طاقت ور اسٹیبلشمنٹ اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں سے بات چیت کررہی ہے لیکن دونوں سائیڈیں آسانی سے بات نہیں مانیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بہت سخت پوزیشن لی ہوئی ہے۔ وہ اپنے پتوں کو سینے کے ساتھ لگائے ہوئے ہیں اور اپنی مرضی کے آرمی چیف کی تعیناتی پر اصرار کر رہے ہیں۔ دوسری جانب شہباز شریف مسلسل نوازشریف کو ہر بات بتا رہے ہیں اور اب یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے ساتھ بھی براہ راست بات چیت کرے۔ لیکن دوسری جانب حکومتی حلقوں نے نجم سیٹھی کے اس دعوے کو سختی سے رد کیا ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی سطح پر کسی قسم کا کوئی پنڈی پلان زیر بحث نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نجم سیٹھی کا تھیسیس فوج کے غیر سیاسی ہونے کے بیانیے کے بر عکس ہے اور وہ شاید بھول چکے کہ عمران کی فوج سے لڑائی ہی یہ ہے کہ وہ اس کو دوبارہ سیاست میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ حکومتی ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ سیٹھی کا یہ دعویٰ بھی ایک لطیفے سے کم نہیں کہ عمران خان اپنی مرضی کے آرمی چیف کی تعیناتی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ذرائع نے یاد دلایا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے اور عمران خان کی ضد کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ‘خبر سے آگے’ میں گفتگو کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے یہ دعوی ٰکیا کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو کہا ہے کہ مجھے فوراً الیکشن کروا کر دیں، تاکہ اگلا آرمی چیف میں خود لگاؤں سکوں۔ انکے مطابق عمران کا اصرار ہے کہ اس سے کم پر میں راضی نہیں ہوں گا۔ جواب میں اسٹیبلشمنٹ نے عمران کو تجویز دی ہے کہ نیا آرمی چیف نگران حکومت کو لگانے کا موقع دیا جائے اور اس نقطے پر عمران سے بات چیت اٹکی ہوئی ہے۔ دوسری جانب حکومت والے آرمی چیف کی تعیناتی پر مذاکرات کرنے کو تیار ہیں مگر انہوں نے کہا ہے کہ ہم فوری طور پر الیکشن کیلئے تیار نہیں ہیں۔

تاہم حکومتی حلقوں نے نجم سیٹھی کے دعوؤں پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عمران کی خواہشات کو خبر بنا کر پیش کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے نجم سیٹھی مسلسل یہ چورن بیچ رہے ہیں کہ اگلے عام انتخابات جنوری میں ہونے جا رہے ہیں اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی اگلی حکومت کرے گی۔ حکومتی حلقوں کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے نجم سیٹھی کو اسٹیبلشمنٹ کا پرو عمران گروپ مسلسل غلط اطلاعات فیڈ کر رہا ہے اور وہ آنکھیں بند کرکے انہیں تجزیے کی صورت میں بیچتے چلے جا رہے ہیں۔ سرکاری حلقوں نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ نہ تو نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر عمران خان کے ساتھ کوئی مذاکرات ہوں گے اور نہ ہی اگلے الیکشن اگست سے پہلے ہو پائیں گے۔

دوسری جانب نجم سیٹھی نے اپنا تجزیہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے پہلے دن سے یہ گیم شروع کی ہے کہ آرمی چیف میرا ہونا چاہیے اور آرمی کو میرے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے۔ عمران اصل میں جنرل باجوہ کو کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ ابھی کچھ عرصے کے لیے رک جائیں اور اگلے الیکشن کے بعد دوبارہ سے معاملات خان صاحب کے ہاتھ میں دے کر رخصت ہوں۔ نجم کے بقول سیاست دانوں میں اس وقت مقابلہ لگا ہوا ہے کہ پہلے جنرل باجوہ کو توسیع کون دے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اگر اسٹیبلشمنٹ کی بات نہیں مانیں گے تو اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم اور پرویز الہٰی کے ذریعے عمران پر پریشر ڈالے گی۔ عمران کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے جو معاملات چل رہے ہیں اس کا مرکزی کردار عارف علوی ہے۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ عمران اور باجوہ کے مابین ملاقاتیں بھی عارف علوی کے پاس ہی ہو رہی ہیں۔ لیکن حکومتی حلقوں کا اصرار ہے کہ جنرل باجوہ کو مزید توسیع دینے کی بات کبھی حلقوں میں زیر بحث ہی نہیں آئی۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی 17 ستمبر کو ایک پریس کانفرنس میں واضح طور پر بتایا ہے کہ جنرل باجوہ کی توسیع کے حوالے سے نہ تو کوئی مطالبہ سامنے آیا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے۔

لیکن نجم سیٹھی کا اصرار ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ گیم کرنے میں ماہر ہے، وہ پورا پلان بناتی ہے اور تمام فریقین کو ٹریپ کر لیتی ہے۔ سیٹھی تسلیم کرتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان کو نومبر سے پہلے نکالا ہی اس لئے تھا کہ وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا کر اپنا ون پیج والا اتحاد اور مضبوط کر کے حزب اختلاف کی اگلے پانچ دس سال کیلئے چھٹی نہ کرا دیں۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فوری بعد اگر پی ڈی ایم والے الیکشن کی جانب چلے جاتے تو وہ جیت سکتے تھے کیونکہ تب عمران بہت غیر مقبول تھے۔ لیکن پی ڈی ایم نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کہ ابھی حکومت میں رہا جائے۔ بقول سیٹھی حکومت اب بھی نئے الیکشن اگلے سال اگست کے بعد کرانا چاہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جس دن چاہے گی اس حکومت کی چھٹی ہو جائے گی۔ سیٹھی کا کہنا تھا کہ قومی خزانے میں آئی ایم ایف کے پیسے آ چکے ہیں اور عمران خان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے لہذا اسٹیبلشمنٹ کسی بھی وقت حکومت ختم کر کے نئے الیکشن کی جانب جا سکتی اور اس حوالے سے تیارکردہ پنڈی پلان پر عمل درآمد اب دور نہیں۔

تاہم حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ نجم سیٹھی جو بھی کہانیاں سناتے رہیں اور عمران جو بھی خواہش ظاہر کرتے رہیں، حقیقت یہ ہے کہ اگلے الیکشن کا اعلان اگست میں ہوگا جب حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور انتخابات کا انعقاد اکتوبر 2003 میں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آئین کے مطابق موجودہ حکومت کی مدت اگست میں ختم ہونی ہے اور نئےالیکشن کا فیصلہ عمران خان یا اسٹیبلشمنٹ نے نہیں بلکہ پی ڈی ایم حکومت نے کرنا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ویسے بھی اس وقت پاکستان کے تین صوبے شدید ترین سیلاب کی زد میں ہیں اور اگر حکومت چاہے بھی تو فوری الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔

Related Articles

Back to top button