خفیہ ریکارڈنگ والے ہیکر کا حکومت سے مذاکرات کا انکشاف


ڈارک ویب پر وزیراعظم ہاؤس کی خفیہ ریکارڈنگز جاری کرنے والے انڈی شیل نامی ہیکر نے مزید آڈیو لیکس رکوانے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا انکشاف کرتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ اگر انٹیلی جنس بیورو نے دوبارہ گڑبڑ کی تو بحال ہونے والے مذاکرات ختم کردیے جائیں گے جس کا وفاقی حکومت اور اداروں کو بھاری نقصان ہو گا۔ ہیکر کا دعوی ٰہے کہ حکومت پاکستان کے ایما پر طارق فاطمی اسکے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں جس پر انہیں پورا اعتبار ہے، لیکن انٹیلی جنس بیورو اور طاقتور ادارے گڑبڑ کرنے کو کوشش کر رہے ہیں جس سے مذاکرات دوبارہ معطل ہو سکتے ہے۔ ہیکر کا موقف ہے کہ اس کے پاس موجود وزیر اعظم ہاؤس کی خفیہ آڈیو ریکارڈنگز برائے فروخت نہیں ہیں اور اسکا بنیادی مقصد پاکستان کی بھلائی اور اسکے نظام کی بہتری ہے۔

ہیکر نے اپنی تازہ ٹویٹس میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ طارق فاطمی اپنے وعدے پر قائم رہیں گے اور مذاکرات بحالی کے بعد مزید کوئی خرابی نہیں کی جائے گی۔ اس ٹوئٹ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستانی حکام اور اس کے مابین مذاکرات کچھ عرصے سے جاری ہیں جن میں تعطل بھی آیا تھا لیکن اب رابطے دوبارہ بحال ہو چکے ہیں۔

یاد رہے کہ انڈی شیل نامی ہیکر نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ اس کے پاس وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی اہم گفتگو کی ریکارڈنگز کا خزانہ موجود ہے جسے وہ 30 ستمبر کو ریلیز کرنے جا رہا ہے۔ ان ریکارڈنگز میں وزیراعظم کے علاوہ آرمی چیف کی گفتگو بھی شامل ہے۔ 27 ستمبر کو انڈی شیل نامی ہیکر نے مزید ٹوئیٹس کرتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ اب مذاکراتی عمل کے دوران کسی قسم کی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیے اور اب مذاکرات صرف میری شرائط پر ہوں گے۔ اس نے یہ عجیب دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس وقت اسلام آباد جنرل چراغ حیدر چلا رہے ہیں جو وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل چراغ حیدر اس وقت کور کمانڈر ملتان ہیں اور موجودہ جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں ان کا ساتواں نمبر ہے۔ تاہم حکومت پاکستان نے ابھی تک ہیکر کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی کہ طارق فاطمی اسکے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں۔ یاد رہے کہ طارق فاطمی وزیراعظم کی کابینہ کا حصہ ہیں اور شہباز شریف کے قریب خیال کیے جاتے ہیں۔

دوسری جانب حکومت اور خفیہ ایجنسیاں ابھی تک سراغ نہیں لگا پائیں کہ انڈی شیل نامی ڈارک ویب ہیکر کے پاس وزیراعظم آفس کا آڈیو ڈیٹا جاسوسی آلات کے ذریعے پہنچا یا پھر ہیکنگ کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ ایجنسیوں کے لیے پریشانی یہ ہے کہ ہیکر نے 30 ستمبر تک اپنے پاس موجود تمام آڈیو ڈیٹا ریلیز کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر واقعی طارق فاطمی ہیکر سے مذاکرات میں مصروف ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ ایسا ڈیٹا ضرور موجود ہے جس سے حکومت اور دیگر اداروں کی ساکھ خراب ہو سکتی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے پہلے ہی ایک پریس کانفرنس میں تسلیم کیا ہے کہ پی ایم ہاؤس کی آڈیو ریکارڈنگز سنگین معاملہ ہے۔ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ ان ریکارڈنگز کے بعد کیا کسی ملک کا وزیراعظم مجھ سے ملنے آئے گا؟

انٹیلی جنس ذرائع کا اصرار ہے کہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں اس میں 100؍ فیصد سائبر سیکورٹی کو یقینی بنانا ممکن نہیں۔ تاہم، اس بات کا پتہ نہیں چل پایا اور کوئی وضاحت بھی موجود نہیں کہ پی ایم ہائوس کی جاسوسی کئی مہینوں سے کیسے ہو رہی تھی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی ڈیوائسز سے پاک کرنے کیلئے وزیراعظم آفس میٹنگ رومز وغیرہ کی باقاعدگی کے ساتھ تلاشی لی جاتی ہے۔ اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ جو ہو چکا ہے اسے درست نہیں کیا جا سکتا لیکن مستقبل کیلئے درست اقدامات لیے جا چکے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو انٹیلی جنس بیورو نے 10؍ دن قبل ہیکنگ اور جاسوسی کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پر یہ بات سامنے آئی تھی کہ وزیراعظم آفس میں 100؍ گھنٹے کی وزیراعظم اور کابینہ ارکان کی بات چیت انٹرنیشنل ہیکر ویب سائٹ پر لیک ہوئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہیکر نے ڈیٹا فروخت کرنے کے لیے 3؍ لاکھ 45؍ ہزار ڈالرز کا مطالبہ کیا ہے، ڈیٹا کا حجم 8؍ گیگا بائیٹس ہے جس میں سیاسی، معاشی اور سلامتی سے جڑے معاملات پر بات چیت موجود ہے۔ اگرچہ انٹیلی جنس ذرائع کو ان دعوئوں کے درست ہونے کا یقین نہیں لیکن اب انڈی شیل ڈارک ویب نے اعلان کردیا ہے کہ وہ جمعہ (30؍ ستمبر کو) ساڑھے 9؍ بجے صبح باقی ریکارڈنگز بھی جاری کر دے گا۔ ہیکر کے دعوے میں کہا گیا ہے کہ آڈیو ریکارڈنگز میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت، سرکاری افسران کے ساتھ بات چیت، فوجی افسران کے ساتھ بات چیت، اہم فوجی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت، نجی او رسرکاری معاملات پر بات چیت، وزیراعظم کے خاندان کے افراد کے درمیان بات چیت شامل ہے جبکہ ایسی بات چیت کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے جن میں مجرمانہ نوعیت کی بات چیت بھی شامل ہے۔ خفیہ ریکارڈنگز میں ججوں اور غیر ملکی وفود کے ساتھ بات چیت بھی شامل ہے جبکہ کچھ آڈیوز میں سرکاری ملازمین کو احکامات و ہدایات دی جا رہی ہیں۔

Related Articles

Back to top button