اسلام آباد کے بلیو ایریا میں کسان سراپا احتجاج کیوں؟


زرعی زمینوں پر رہائشی سکیموں کی بھرمار، مہنگی بجلی اور ملک بھر میں گندم کا سرکاری ریٹ مقرر نہ ہونے پر اسلام آباد کا رخ کرنے والے 25 ہزار سے زائد کسانوں نے بلیو ایریا میں دھرنا دے دیا ہے لیکن ابھی تک ان کے مطالبات تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو پایا۔ پاکستان بھر کے کسان اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے اسلام آباد میں موجود ہیں اور انہوں نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کی منظوری تک اسلام آبادمیں دھرنا جاری رکھیں گے۔ کسانوں کی نمائندہ تنظیم کسان اتحاد نے ریلی نکالنے سے قبل ہی اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا تھا جس کے باعث اسلام آباد کے ریڈ زون کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو کنٹینر لگا کر سیل کر دیا گیا تھا۔ تاہم جب کسان اتحاد کی ریلی اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوئی تو شہر کی کئی سڑکوں کو بند کر دیا گیا، کسان اتحاد نے انتظامیہ کے سامنے موقف رکھا کہ وہ کسی صورت ایف نائن پارک میں دھرنا نہیں دیں گے بلکہ ڈی چوک کی طرف جائیں گے، انکاکہنا تھا کہ ایف نائن پارک سے بہتر ہے ہمیں جیلوں میں ڈال دیں۔ ڈی چوک جانے کی اجازت نہ ملنے کے بعد اب ملک بھر سے اکٹھے ہونے والے کسانوں نے بلیو ایریا میں دھرنا دے دیا ہے۔

اسلام آباد پہنچنے والے 25 ہزار کسانوں نے سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں گندم کا سرکاری ریٹ یکساں کرنے اور بجلی پر چلنے والے ٹیوب ویلز کے بلوں میں کمی سمیت کھاد کے سرکاری ریٹ مقرر کرنے اور گنے کا ریٹ بڑھانے کے مطالبات کر رکھے ہیں۔چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین بھاٹ نے بتایا کہ ہماری فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، سیلاب کی وجہ سے کسان ڈوب گیا ہے، ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ بجلی کی قیمت کم کریں۔ اگر ہمیں 30 روپے فی یونٹ بجلی ملے گی، کھاد نہیں ملے گی اور ڈیزل 250 روپے فی لیٹر ہوگا تو گندم کیسے کاشت ہو گی؟ انکا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی سیلاب کے باعث تباہ ہوچکے ہیں اور رہی سہی کسر شہباز حکومت نے پوری کر دی ہے۔

کسان اتحاد کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ملاقات کا وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ میں آپ کے مسئلے حل کروں گا، ہم تو آپ کے آنے کا انتظار کرتے رہے اور تاحال ہمارے مسئلے حل نہیں ہو سکے، خدارا کسانوں کی بات سنیں، ہم لڑنے یا کسی کی پارٹی بننے نہیں آئے جو کسان مر رہے ہیں ان کے مسائل کے حل کے لیے آئے ہیں۔زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بننے کے خلاف مطالبے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے کے خلاف متعلقہ افراد سے مذاکرات کیے جائیں گے، جس سوسائٹی پر گندم کاشت کرنی تھی اس پر پراجیکٹ بن رہے ہیں، کسانوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ نہروں کی بندش دور کی جائے اور علاقے میں فوری طور پر پانی چھوڑا جائے اور زراعت کو بھی صنعت کا درجہ دیا جائے۔

Related Articles

Back to top button