جنرل باجوہ کی توسیع کا کھیل ختم: نیا COAS کون ہو گا؟

واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے ایک خطاب کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے اس واضح اعلان کے بعد کے وہ اپنے وعدے کے مطابق نومبر میں ریٹائر ہو جائیں گے، انہیں مذید توسیع دینے کی افواہوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ ان افواہوں میں تب تیزی آگئی تھی جب عمران خان نے جنرل قمر باجوہ سے ایوان صدر میں ایک خفیہ ملاقات کے بعد یہ تجویز پیش کر دی تھی کہ اگلے آرمی چیف کا انتخاب اگلے الیکشن کے انعقاد کے بعد نئی حکومت کرے اور تب تک جنرل باجوہ کو بطور آرمی چیف برقرار رکھا جائے۔

اس تجویز کے بعد عسکری حلقوں میں آرمی چیف کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ انہوں نے پچھلے چھ ماہ سے فوج کے ادارے کو گالیاں دینے والے شخص کے ساتھ خفیہ ملاقات کیوں کی اور اس حوالے سے ادارے کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا؟ لیکن جنرل باجوہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو پیشگی اطلاع دینے کے بعد عمران خان سے ملاقات کی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے جنرل باجوہ کو مذید توسیع دینے کا ایک فیصد چانس بھی تھا تو وہ عمران کی طرف آنے والی ایکسٹینشن کی تجویز کے بعد مکمل طور پر ختم ہو گیا اور آرمی چیف کو بھی آگاہ کر دیا گیا تھا۔ کچھ حکومتی حلقے تو یہ دعوی کرتے ہیں کہ جنرل باجوہ کی جانب سے عمران خان کے ساتھ ملاقات کا بنیادی مقصد حکومت پر ایک اور توسیع کے لیے دباؤ ڈالنا تھا لیکن حکومت اور اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بننے کی یہ کوشش الٹی پڑ گئی۔ اب اکتوبر کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے کہا ہے کہ وہ 22 نومبر 2022 کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے کے لیے پرعزم ہیں۔

جنرل باجوہ کے اس حتمی اعلان کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی جگہ کونسا جرنیل نیا آرمی چیف بنے گا؟ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ جس جرنیل کو اپنی جگہ دیکھنا چاہتے ہیں وہ کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد ہیں، لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں چکوال کنکشن کی وجہ سے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور عمران خان کے دست راست لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا یار غار مانا جاتا ہے، لہذا یہ خدشہ موجود ہے کہ اگر ساحر شمشاد کو آرمی چیف لگایا گیا تو فوج کو غیر سیاسی کرنے کا عمل ریورس ہو جائے گا اور حکومت کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہو جائے گا۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ساحر شمشاد دراصل فوج میں اس دھڑے کی نمائندگی کرتے ہیں جسے سیاست کا ٹھیک ہے اور جس نے فوج اور آئی ایس آئی کو سیاست کی دلدل میں پھنسایا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس دھڑے سے تعلق رکھنے والے تین اہم ترین کردار آئی ایس آئی کے سابقہ سربراہ رہے ہیں جن میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا، لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پچھلے دس برس میں صرف ایک آئی ایس آئی چیف ایسا ایا تھا جو سیاست سے دور رہا اور جس نے فوج کے ادارے کو بھی سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ اس جرنیل کا نام لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر تھا جنہیں ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ کے بعد آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ تاہم ابھی انہیں تعینات ہوئے نو ماہ ہی ہوئے تھے کہ عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی فیض آباد دھرنے کے ماسٹر مائنڈ فیض حمید کو انکی جگہ نیا آئی ایس آئی چیف مقرر کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ عاصم منیر نے عمران خان کو خاتون اول کے خاندان کی کرپشن کے حوالے سے آگاہ کیا تھا جس پر وہ ناراض ہو گئے اور انہیں فوری طور پر فارغ کروا دیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کوارٹر ماسٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر ہیں اور ان کے آرمی چیف بننے کا امکان بھی موجود ہے۔

یاد رہے کہ موجودہ آرمی چیف 29 نومبر کو ریٹائر ہونے جا رہے ہیں۔ جنرل باجوہ کی جانب سے ریٹائر ہونے کا واضح اعلان آنے سے پہلے اس برس اپریل میں فوجی ترجمان نے بھی واضح کیا تھا کہ آرمی چیف اپنی ملازمت میں توسیع کے خواہشمند نہیں اور وہ اپنی معیاد پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔
آرمی چیف کی تقرری آئین کے آرٹیکل 243 کے سیکشن تین کے مطابق صدر مملکت، وزیر اعظم کی سفارش پر کرتا ہے۔‎عام طور پر جی ایچ کیو چار سے پانچ سب سے سینیئر لیفٹیننٹ جنرلز کے ناموں کی فہرست اور ان کی تفصیلات وزارت دفاع کو بھیجتا ہے، جس کے بعد یہ لسٹ وزیر اعظم کی میز پر پہنچتی ہے جو صدر سے مشاورت کے بعد اس عہدے پر تعیناتی کرتے ہیں، اس معاملے پر مزید غور و خوض کے لیے اگر وزیر اعظم چاہیں تو کابینہ کے سامنے بھی یہ معاملہ زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے اور وزیراعظم سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کے ساتھ غیر رسمی مشاورت کر سکتے ہیں۔پاکستانی فوج کے ایک سابق سینئر افسر کے مطابق فوج میں یہ قانون تو نہیں تاہم روایت ضرور ہے کہ فور سٹار جنرل یعنی آرمی چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر ترقی پانے والے افسران بطور لیفٹننٹ جنرل کمانڈ اور سٹاف دونوں فرائض سر انجام دیتے ہیں۔

نومبر 2022 میں اگر وزیر اعظم شہباز شریف سینیارٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی چیف کا انتخاب کرتے ہیں تو موجودہ فوجی سربراہ کی ریٹائرمنٹ کے وقت 76 ویں لانگ کورس کے افسران فوج میں سب سے سینیئر ہیں۔76ویں لانگ کورس میں آج سینیئر ترین افسر لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر ہیں۔ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے دو روز پہلے 27 نومبر کو انکی ریٹائرمنٹ طے ہے لیکن ان کا نام بھی ان جرنیلوں کی لسٹ میں شامل ہو گا جو آرمی چیف کے ممکنہ امیدوار ہوں گے۔ عاصم منیر کی بطور تھری سٹار تعیناتی تو ستمبر 2018 میں ہو گئی تھی تاہم انھوں نے اگلے دو ماہ رینک نہیں لگایا تھا کیونکہ انہیں جس جرنیل کی جگہ آرمی چیف لگایا گیا تھا اس کی ریٹائرمنٹ میں دو ماہ باقی تھے۔ اس لیے ان کی چار سالہ مدت ملازمت 27 نومبر کو یعنی موجود آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے صرف دو دن پہلے پوری ہوگی۔

عسکری ذرائع کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر آرمی چیف بھی لگ سکتے ہیں اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بھی تعینات ہو سکتے ہیں کیونکہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا کی ریٹائرمنٹ کے دن وہ حاضر سروس ہوں گے۔ لیکن چونکہ آرمی چیف کے امیدواروں کی سنیارٹی لسٹ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے کچھ ہفتے پہلے وزیر اعظم جاتی ہے لہٰذا اس میں سید عاصم منیر احمد شاہ کا نام لازمی شامل ہوگا۔

عاصم منیر کے بعد 76 ویں لانگ کورس میں دوسرا نام لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا ہے۔ سندھ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے ساحر شمشاد مرزا اس وقت ٹین کور، جسے راولپنڈی کور بھی کہا جاتا ہے، کمان کر رہے ہیں۔ اس سے قبل خود جنرل قمر باجوہ نے بھی یہی کور کمان کی تھی۔ یہ علاقے کے لحاظ سے فوج کی سب سے بڑی کور ہے جو کشمیر اور سیاچن جیسے علاقوں کی نگرانی کرتی ہے۔ ساحر فوج کے اہم ترین عہدوں میں سے ایک، یعنی بطور چیف آف جنرل سٹاف بھی تعینات رہے ہیں۔ وہ اپنے کیریئر میں تین بار یعنی بطور لیفٹیننٹ کرنل، بریگیڈیئر اور پھر بطور میجر جنرل ملٹری آپریشنز یعنی ایم او ڈائریکٹوریٹ میں تعینات رہے۔ اسکے علاوہ وہ وائس چیف آف جنرل سٹاف رہے۔ بطور میجر جنرل انھوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی ڈویژن کی کمانڈ کی جو اس وقت جنوبی وزیرستان میں ہونے والے آپریشنز کی نگرانی کر رہی تھی۔

بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے اظہر عباس سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ وہ اس وقت فوج کے اہم ترین عہدوں میں سے ایک یعنی چیف آف جنرل سٹاف کے طور پر تعینات ہیں۔ اس سے قبل انھوں نے بطور کور کمانڈر ٹین کور کمان کی ہے۔ ان دو عہدوں کی حد تک جنرل اظہر عباس اور ساحر شمشاد مرزا کی پروفائل ملتی جلتی ہے۔ اظہر عباس بطور میجر جنرل کمانڈنٹ انفنٹری سکول تعینات رہے جبکہ سابق فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرح وہ مری کے جی او سی بھی رہے۔ وہ جنرل (ر) راحیل شریف کے پی ایس سی یعنی پرنسپل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ بطور لیفٹیننٹ جنرل وہ ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ سٹاف رہے ہیں۔ اگرچہ لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر ہیں مگر ایک مضبوط کیریئر کے حامل ہیں۔ فوج میں انھیں خاص طور پر ہماری مغربی سرحد کا ماہر مانا جاتا ہے۔ ان کے والد کرنل راجہ سلطان نے 1971 کی جنگ میں شامل تھے تاہم وہ مسنگ ان ایکشن افسر ہیں یعنی ان کے لاپتہ ہونے کے باعث ان کے زندہ ہونے یا نہ ہونے سے متعلق علم نہیں۔ بعد میں نعمان محمود نے اپنے والد کی یونٹ 22 بلوچ کی کمانڈ بھی کی۔ بلوچ رجمنٹ کے لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود اس وقت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ ہیں۔ جبکہ اس سے قبل وہ پشاور کے کور کمانڈر تعینات رہے ہیں۔

فوجی جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر اس وقت غالبا خاموش ترین طبیعت کے افسر کے طور پر معروف لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر ہیں جو کشمیری برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ آرٹلری سے تعلق رکھنے والے عامر سابق صدر آصف زرداری کے ملٹری سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ وہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ڈائریکٹر جنرل سٹاف ڈیوٹیز تھے اور آرمی چیف سیکرٹریٹ کے امور کی نگراتی کرتے تھے۔ بطور میجر جنرل انھوں نے لاہور ڈویژن کمانڈ کی۔ اس وقت وہ گوجرانوالہ کور کی کمانڈ کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل تعینات تھے، سنیارٹی لسٹ میں چھٹے نمبر پر لیفٹینٹ جنرل چراغ حیدر ہین جنکا تعلق فرنٹئیر فورس رجمنٹ سے ہے۔ وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل نہیں بلکہ انھوں نے آفیسر ٹریننگ سکول سے فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا۔

بطور بریگیڈیئر وہ ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ میں تعینات رہے۔ انڈیا کی جانب سے ستمبر 2019 میں لائن آف کنٹرول کے پاس سرجیکل سٹرائیک کے وقت وہ جہلم کا ڈویژن کمانڈ کر رہے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل چراغ حیدر ڈائریکٹر جنرل ملٹری ٹریننگ رہے جبکہ ڈی جی جوائنٹ سٹاف کے عہدے پر بھی تعینات رہے ہیں۔ اس وقت وہ کور کمانڈر ملتان ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم ہاؤس کی آڈیو لیکس پبلک کرنے والے انڈی شیل نامی ہیکر نے یہ دعوی کیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل چراغ حیدر اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کے قریب ترین جرنیل ہیں اور مسلسل ان سے رابطے میں رہتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button