توسیع بل پر یوٹرن کے بعد ن لیگ اندرونی انتشار کا شکار

شریف برادران کی جانب سے جنرل باجوہ کی توسیع کے معاملے پر غیر مشروط حمایت کے بعد پاکستان میں موجود دوسرے درجے کی لیگی قیادت میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ کئی مرکزی رہنما ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے لئے گئے تاریخی یوٹرن پر شدید تنقید کر رہے ہیں اور بعض نے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دےدی ہے۔
حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لئے بل کا مسودہ اسمبلی میں جمع کروا دیا ہے اور اپوزیشن کی سب سے بڑی اور فعال جماعت مسلم لیگ ن کی جانب سے حیرت انگیز طور پر اس تاریخی بل کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی تمام تر مشکلات کا سبب سمجھنے والی مسلم لیگ ن کی جانب سے یہ قدم انتہائی حیران کن ہے اور اسے تحریک انصاف کے کسی بھی یوٹرن سے بڑا اور تاریخی یوٹرن قرار دیا جا رہا ہے۔
شریفوں کے اس تاریخی یوٹرن کے بعد مسلم لیگ ن کے اندر اس فیصلے کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ پاکستان میں موجود ن لیگ کی دوسرے درجے کی لیڈرشپ نے شریف برادران کے حیران کن فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت کی غیر موجودگی میں ہم نے قربانیاں دے کر جماعت کو سنبھالا، ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ لے کر چلنے کی وجہ سےقیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ساتھ ہی بطور اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم بھی دیا۔ ان رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران مسلم لیگ ن نے مزاحمت اور اصول کی سیاست کرتے ہوئے عوام نے میں اپنی ساکھ بحال کی مگر پارٹی قیادت نے توسیع کے معاملے پر ایک ایسا فیصلہ لیا ہے جس سے سب خاک میں ملتا نظر آتا ہے اور ایک بار پھر یہ تاثر قائم ہو گیا ہے کہ ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ ہے اور مزاحمت کی بجائے ہمیشہ ڈیل کرکے اقتدار میں آنے کو ترجیح دیتی ہے۔
خیال رہے کہ اس وقت ن لیگ کے قائد نواز شریف سزا معطلی کے بعد علاج کی غرض سے لندن میں مقیم ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز تیمارداری کے لیے ان کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی شدید علالت کے باوجود جیل کاٹ رہے ہیں جبکہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ن لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ خان تقریبا چھ مہینے بعد اے این ایف کی حراست سے باہر آئے ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف تاحال نیب کی حراست میں ہیں۔ لیگی رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ نون لیگ پر یہ کڑا وقت صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے آیا ہے اور گزشتہ دو برسوں میں ثابت قدمی کے ساتھ ن لیگ نے احتساب کے نام پر انتقام کا سامنا کیالیکن اب اسکا مزاحمتی بیانیہ آرمی چیف کی توسیع کے معاملے پر غیر مشروط حمایت کی وجہ سے ملیا میٹ ہو گیا ہے۔ بعض رہنماؤں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جیلوں میں بند دوسرے لوگوں کے مقابلے میں قیادت نے اپنی ذاتی راحت کی فکر کی ہے اور جماعت کو فروخت کردیا ہے۔ ن لیگ کے بعض رہنما کہتے ہیں کہ حالیہ دنوں لندن میں ہونے والی پارٹی میٹنگ میں قیادت نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے معاملے پر حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے اور کبھی ایکسٹینشن کی حمایت نہیں کریں گے۔ تاہم بعد میں انہونی ہوگئی۔ شریف برادران کی غیرموجودگی میں پاکستان میں ن لیگ کی قیادت کرنے والے خواجہ آصف اس حوالے سے شدید تنقید کی زد میں ہیں اور پاکستان میں موجود ن لیگ کے کئی اراکین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیں فروخت کر دیا ہے جس کے بعد خواجہ آصف نے یہ سخت مؤقف اختیار کیا ہے کہ اگر پوری پارٹی قیادت بھی جنرل باجوہ کی توسیع کے حق میں ہوگئی تو پھر بھی وہ کسی صورت اس فیصلے کی حمایت نہیں کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف نے اس معاملے پر ملعون و مطعون کئے جانے کے بعد مستعفی ہونے کی دھمکی دی تھی مگر پارٹی قیادت نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔
دوسری جانب ن لیگ کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کسی صورت توسیع کے حق میں نہیں تھے مگر پاکستان سے انکی والدہ نے انہیں فون کرکے قسم ڈالی کہ وہ اس اہم قومی معاملے پر اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے توسیع کے معاملے پر قانون سازی کی غیر مشروط حمایت کریں جس کے بعد نوازشریف ایسا کرنے پر مجبور ہوگئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button