عمران خان کے شریک ملزم اعظم خان کا انجام کیا ہوگا؟

سینئیر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ نیب کی قید کاٹنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی طرح عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی اسی انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کا سامنا فواد حسن فواد کو کرنا پڑا تھا. اسکی وجہ یہ ہے کہ لوگ طاقت، شہرت اور اختیار کے نشے میں مکافات عمل بھول جاتے ہیں، ویسے بھی تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں لیتے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ میں عمران کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو 1999 سے جانتا ہوں۔ ہمارا تعلق ایک ہی علاقے سے ہے۔ ان کا ایک ایسے خاندان سے تعلق ہے جس میں سیاسی لوگ بھی شامل ہیں اور بیوروکریٹس بھی۔ لیکن اعظم خان ان سب میں مختلف ہیں۔ وہ اپنی شخصیت کے لحاظ سے بالکل عمران خان کی کاپی ہیں جس طرح عمران کی دنیا ان کی ذات سے شروع ہوتی اور اسی پر ختم ہوتی ہے، اسی طرح اعظم خان بھی اپنی ذات کے گنبد میں بند ہیں۔
انہوں نے بیوروکریسی میں اپنا ایک گروپ بنا کر اسے نواز رکھا ہے اور اب بھی نہ صرف خیبر پختونخوا ان کے سلیکٹڈ بیوروکریٹس چلا رہے ہیں بلکہ مرکزی حکومت میں بھی ان کے گروپ کے کئی لوگ اہم عہدوں پر تعینات ہیں۔ صافی کہتے ہیں کہ جب خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو اعظم خان نظریاتی طور پر پی ٹی آئی کے مخالف تھے۔ چنانچہ جب پرویز خٹک وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے اعظم خان کو کھڈے لائن لگا دیا، لیکن جب پرویز خٹک اور جہانگیر ترین کے اختلافات شروع ہوئے تو اعظم نے پہلے جہانگیر ترین اور پھر ان کے ذریعے عمران خان تک رسائی حاصل کر لی۔
عمران خان نے انہیں ہر حوالے سے اپنے جیسا پایا اور کچھ ہی عرصہ میں وہ خود اعظم خان کی بوتل میں مکمل طور پر بند ہوگئے، یوں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی مرضی کے بغیر ہی اعظم خان کو ترین اور عمران نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا تعینات کردیا۔ کچھ عرصہ بعد انہیں خٹک کی مرضی کے خلاف پختونخوا کا چیف سیکرٹری تعینات کر دیا گیس اور یہاں سے ان کی گڈی مزید چڑھ گئی۔
سلیم صافی بتاتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں جب عمران خان کو وزیراعظم سلیکٹ کروایا گیا تو اپنے پرنسپل سیکرٹری کے لئے انہوں نے اعظم خان کو چنا۔ ابھی نوٹیفیکیشن نہیں ہوا تھا کہ میری اعظم خان سے بات ہوئی، میں نے انہیں فواد حسن فواد کے انجام کی مثال دے کر درخواست کی کہ وہ یہ منصب نہ لیں اور اس کی جگہ چیف سیکرٹری ہی رہیں، لیکن بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس منصب کا حصول انکی اپنی خواہش تھی۔چنانچہ وہ پرنسپل سیکرٹری بن گے۔
انہوں نے یہ منصب سنبھالا تو میں نے زیادتی کے شکار ایک افسر کے بارے میں ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے نگران دور میں ہونے والی زیادتی کا ازالہ کریں۔ اس افسر سے ہمدردی کی ایک وجہ یہ تھی کہ آفتاب شیرپائو پر خودکش حملے میں ان کے دو بھائی شہید اور وہ خود زخمی ہوگئے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر اعظم خان نے آنکھیں بدل لیں اور مسئلہ حل کرنے کی بجائے انہوں نے انکے ساتھ بدسلوکی بھی کی۔ اس افسر کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کچھ دنوں بعد عدالت کے ذریعے ہوگیا لیکن وہ دن اور آج کا دن میری نہ تو کبھی اعظم خان سے کوئی بات ہوئی اور نہ کوئی ملاقات۔ وہ ڈیفیکٹو وزیراعظم بن کر اقتدار کے مزے لوٹنے رہے اور ہم عمران خان حکومت کی انتقامی کارروائیاں برداشت کرتے رہے۔ لیکن ایک بات نے مجھے حیران کیا کہ اعظم خان تبدیلی سرکار کا حصہ بننے کے بعد خود بھی اتنے کیوں بدل گئے۔
سلیم صافی بتاتے ہیں کہ عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری بننے سے قبل اعظم خان اپنی انا پرستی اور اکڑ کی وجہ سے مشہور تھے لیکن تبدیلی سرکار کا حصہ بننے کے بعد ان میں یہ تبدیلی آئی کہ وہ عمران خان کے کہنے پر ہر ناجائز کام کرتے رہے۔ بشیر میمن کو باتھ روم میں لے جانے اور عمران کی بات ماننے پرقائل کرنے کا قصہ میں نے ڈیڑھ سال قبل رپورٹ کیا تھا اور خود بشیر میمن نے یہ قصہ عمران دور میں جنوری 2022 میں ایک انٹرویو کے دوران مجھے سنایا تھا۔ میمن کے مطابق عمران خان نے جب ان سے مطالبہ کیا کہ وہ جج ارشد ملک کی ویڈیو کی بنیاد پر مریم نواز، خواجہ آصف احسن اقبال اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ بنائیں تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ آرٹیکل چھ بہت سیریس الزام ہے اور اگر اس کی بنیاد پر وہ کیس بنا بھی لیں گے تو عدالت اس کو اڑا دے گی۔
لیکن عمران نے اعظم خان کی موجودگی میں بشیر میمن کو محمد بن سلمان کی مثال دی اور کہا کہ ایک طرف ان کے ماتحت ان کے کہنے پر کیا کچھ نہیں کر رہے اور دوسری طرف میں آپ کو حکم دیتا ہوں تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہو۔ اس پر بشیر میمن کا دماغ بھی گھوم گیا اور انہوں نے عمران خان سے کہا کہ سر ! آپ عجیب بات کررہے ہیں۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ڈیڑھ گھنٹے کی ویڈیو ایف آئی اے کے پاس پڑی ہے جس کا فارنزک بھی ہو چکا ہے لیکن انہیں سزا دینے کی بجائے آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں ویڈیو چلانے والوں کے خلاف کیس بنا لوں، اور وہ بھی آرٹیکل 6 کے تحت۔ یوں دونوں کی تلخی ہو گئی۔
چنانچہ اعظم خان انہیں اپنے ساتھ باہر لے گئے۔ بشیر میمن کے بقول اعظم کے دفتر میں لوگ بیٹھے تھے اس لئے وہ انہیں اپنے ساتھ باتھ روم میں لے گئے اور کنڈی لگا کر انہیں قائل کرتے رہے کہ وہ وزیراعظم کی بات مان لیں۔ وہ بشیر میمن کو عمران کی ناراضی کے برے نتائج سے بھی متنبہ کرتے رہے لیکن میمن اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بہرحال تب کے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو گستاخی کی سزا اگلے ہی دن ملنا شروع ہوگئی اور پھر جب تک عمران خان اقتدار میں رہے، وہ زیرِعتاب رہے۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ عمران خان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد سے اب تک جو آڈیو لیکس ہوئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اعظم خان سابق وزیراعظم کے ساتھ ہر پاکستان دشمن سازش میں شریک ملزم رہے ہیں۔ لہذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کا انجام بھی فواد حسن فواد سے مختلف نہیں ہوگا۔

Related Articles

Back to top button