کیا ارشد شریف کا اصل قاتل پاکستان میں موجود ہے؟


کینیا میں سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرنے والے پاکستانی صحافیوں کو یقین ہے کہ ارشد کا قتل سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے کیا گیا اور اس واقعے کا ماسٹر مائنڈ یقینا ًپاکستان میں موجود ہے۔ یہ بات کینیا میں ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کرنے والی وائس آف امریکہ کی نمائندہ ارم عباسی اور جیو نیوز کے نمائندے مرتضیٰ علی شاہ نے کہی۔

سینئر صحافی حامد میر کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے دونوں پاکستانی صحافیوں نے مشترکہ طور پر یہ موقف اپنایا کہ ارشد شریف کا قتل حادثاتی نہیں بلکہ سازش کا نتیجہ ہے جس کے سیاسی محرکات ہو سکتے ہیں۔ ارم عباسی کا کہنا تھا کہ کینیا کی پولیس اور حکومتی اہل کار پاکستانی صحافیوں سے تعاون نہیں کر رہے جو کہ عجیب بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کینیا میں مقیم پاکستانی بھی قتل کے بعد خوف کا شکار ہیں۔ وقار احمد کے مطابق ارشد شریف کو ان کے پاس اے آر وائے نیوز کے مالک سلمان اقبال نے بھجوایا تھا جو ابھی تک قتل کیس کی تحقیقات میں شامل تفتیش نہیں ہوئے۔ مرتضیٰ علی شاہ کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے کینیا پولیس کے اپنے ہی بیانات میں تضاد کھل کر سامنے آگیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ قتل کا مقام ‘کمو کورو’ نیروبی سے تقریباً ساڑھے 4 گھنٹے کی مسافت پر ہے، کمو کورو کے قریب ہی ارشد شریف کی کینیا میں میزبانی کرنے والے دونوں بھائیوں وقار اور خرم احمد کا فائرنگ رینج بھی ہے جبکہ جائے وقوعہ کے قریب پسماندہ قبائلیوں کی رہائش بھی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ رینج سے ‘کمو کورو’ کی جانب جانے والی سڑک پر ایک پولیس ناکہ تھا، اور پولیس پہلے سے ہی کار پر فائرنگ کے لیے پوزیشن لیے بیٹھی تھی، مقامی افراد کے مطابق ارشد کی گاڑی اس جانب سے نہیں آرہی تھی جہاں سے پولیس کو اغوا ہونے والی گاڑی کے آنے کا انتظار تھا۔ تاہم اب اغوا شدہ کار کی کہانی بھی جھوٹی ثابت ہو چکی ہے چونکہ وہ گاڑی ارشد شریف پر فائرنگ سے آدھا گھنٹہ پہلے مل چکی تھی اور یہ اغوا کا معاملہ بھی نہیں تھا۔

مرتضیٰ علی شاہ کے مطابق مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے کبھی پولیس کو ایسے ناکے لگا کر کارروائی کرتے نہیں دیکھا کیونکہ اس ویران علاقے میں چوری یا اغوا کی واردات کا تصور ہی نہیں۔ لیکن عینی شاہدین کے مطابق ارشد شریف کی گاڑی نظر آتے ہی پولیس نے فائرنگ شروع کر دی تھی۔ دوسری جانب کینیا پولیس کے بیانات میں تضاد ہے، پولیس کا ابتدائی موقف یہ تھا کہ وہ ایک اغوا ہونے والے نوجوان کی بازیابی کیلئے وہاں ناکہ لگائے ہوئے تھی جبکہ مقامی تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح سے کار پر گولیاں لگی ہیں اس سے لگتا نہیں ہے کہ یہ چلتی گاڑی پر چلائی گئیں۔ واقعے کے وقت ارشد کی کار چلانے والے خرم احمد کے مطابق وہ فائرنگ کے بعد جائے وقوعہ سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ٹپاسی گاؤں تک گاڑی لے گئے حالانکہ اس کا ایک ٹائر پنکچر ہو چکا تھا اور کار صرف رم پر چل رہی تھی۔ تاہم اس دعوے کے باوجود سڑک پر رم کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ خرم کے تمام تر مشکوک بیانات کے باوجود کینیا پولیس نے انہیں ارشد شریف کے قتل میں شامل تفتیش نہیں کیا۔ اس کی ایک وجہ شاید وقار اور خرم کا اثر رسوخ ہے چونکہ دونوں بھائی جو شوٹنگ رینج چلاتے ہیں وہاں پولیس اور فوج کے سینئر افسران بھی نشانہ بازی کرنے آتے ہیں۔

مرتضیٰ علی شاہ نے بتایا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی شب ‘ایموڈمپ شوٹنگ رینج’ پر 10 امریکی انسٹرکٹرز اور ٹرینر بھی موجود تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ارشد شریف نے 22 اور 23 اکتوبر کو امریکی انسٹرکٹرز اور دیگر کے ساتھ ڈنر کیا۔ ایمو ڈمپ شوٹنگ رینج نیروبی سے ساڑھے 4 گھنٹے کی دشوار گزار مسافت پر واقع ہے، ایموڈمپ میں سپیشل سروس یونٹ اور دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کے لیے سپیشل فورسز کو تربیت دی جاتی ہے۔ ارشد نے اپنی زندگی کی آخری رات اسی شوٹنگ رینج میں گزاری تھی، ارشد کو نیروبی سے 22 اکتوبر کی شام وقار احمد اپنے ساتھ شوٹنگ رینج لے کر گئے تھے جو کہ وقار اور خرم کی ملکیت ہے۔ ارشد نے 23 اکتوبر کو شوٹنگ رینج میں فائرنگ اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ خرم سینئر صحافی کو ڈنر کے بعد 8 بجے لے کر نیروبی کے لیے نکلے، تب ان کے پاس ایک لیپ ٹاپ اور ایک موبائل بھی موجود تھا۔ کینیا حکام کا بتانا ہے کہ 23 اکتوبر کی شب 8 بجے خرم کے ساتھ کار میں جاتے ہوئے ارشد شریف پر فائرنگ کی گئی، خرم عام طور پر نیروبی واپسی کے لیے شوٹنگ رینج والی سڑک استعمال کیا کرتے تھے لیکن 23 اکتوبر کو انہوں نے عام راستے کی بجائے طویل راستہ اختیار کیا اور گاڑی مگادی ہائی وے پر ڈال دی۔ لیکن اسکے باوجود عجیب بات یہ ہے کہ خرم احمد پر قتل کا الزام عائد کرنے پر غور نہیں ہو رہا۔

Related Articles

Back to top button