آرمی چیف کی تعیناتی پر اسٹیک ہولڈرز میں بات جیت

اگلے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے ملک کے اندر اور باہر مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اہم بات چیت جاری ہے جبکہ شریف برادران نے گزشتہ روز لندن میں ہونے والی ایک اہم ترین ملاقات میں مبینہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو حالات و نتائج ہوں، وزیراعظم کسی بھی ’دباؤ‘ کو قبول نہیں کریں گے۔

دوسری جانب، گزشتہ روز ہی ایک اور اہم پیش رفت سامنے آئی کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ جاری کر دیا گیا جس کے بعد ان کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے ایسے نئے آرمی چیف کے تقرر کے لیے دباؤ کے پیش نظر جو ان کے لیے قابل قبول ہو اور قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرے، وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بڑے بھائی کے درمیان لندن میں ہونے والی اہم بات چیت کے حوالے سے باخبر معتبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ملاقات کے دوران دونوں نے فیصلہ کیا کہ آرمی چیف کے تقرر کے وزیراعظم کے اختیارات کسی بھی قیمت پر کسی دوسرے شخص کو نہیں دیئے جائیں گے۔

اندرونی ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کے تناظر میں اپنے بڑے بھائی کے سامنے مبینہ طور پر کچھ حلقوں کی جانب سے پیش کیے گئے آپشنز کو رکھنے کے لیے لندن گئے، ذرائع نے بتایا کہ دونوں بھائیوں نے عمران خان کے فوری انتخابات کے مطالبے کو تسلیم نہ کرنے پر اتفاق کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے نواز شریف کو بتایا کہ تقریبا تمام پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) جماعتیں آرمی چیف کے تقرر اور موجودہ حکومت کی مدت اگست 2023 تک مکمل کرنے کے وزیر اعظم کے اختیارات پر ایک صفحے پر ہیں، پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اپنی حکومت کی قربانی دینے تک کے لیے بھی تیار ہیں لیکن وہ اس معاملے پر اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔

ان ملاقاتوں میں نواز شریف کے بچے مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز بھی موجود تھے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی نجی ٹی وی چینل کو تصدیق کی کہ شریف برادران نے آرمی چیف کے تقرر سے متعلق بات چیت کی۔مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ اتحادی حکومت پر آرمی چیف کے تقرر اور نئے انتخابات کے معاملے پر کچھ حلقوں کی جانب سے ’کچھ دباؤ‘ تھا۔انہوں نے کہا کہ اسی دباؤکے پیش نظر شہباز شریف نے پارٹی قائد سے رابطہ کیا کہ وہ فیصلہ کریں کہ مطالبات مانے جائیں یا نہیں۔

وزیر اعظم دو روز قبل مصر سے واپسی پر اپنے بڑے بھائی اور پارٹی قائد سے نئے آرمی چیف کے تقرر پر ’حتمی بات چیت ’ لینے کے لیے لندن پہنچے تھے جو 3 سال سے خود ساختہ جلاوطن ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت 29 نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔رواں سال اپریل میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کا یہ برطانیہ کا تیسرا دورہ تھا۔معزول وزیر اعظم عمران خان نے متعدد مواقع پر وزیر اعظم کو اشتہاری مجرم (نواز شریف) کے ساتھ اہم تعیناتی پر بات کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور ان کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔
تاہم، نئے آرمی چیف کے انتخاب سے قبل مشاورت کا بار بار مطالبہ کرنے کے بعد سابق چند روز قبل زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر ایک نئے مؤقف کا اظہار کیا اور کہا کہ نہیں شہباز شریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت کی جانب سے اس اہم تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اس سے قبل گزشتہ کئی مہینوں میں متعدد عوامی جلسوں اور بیانات میں عمران خان نے کہا تھا کہ شریف برادران اور آصف زرداری اعلیٰ فوجی عہدے پر تقرر کے لیے اس بنیاد پر نااہل ہیں اور چوروں کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔انہوں نے الزام لگایا کہ آصف زرداری اور نواز شریف احتساب سے بچنے کے لیے اپنی پسند کا آرمی چیف مقرر کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آئندہ انتخابات تک توسیع دینے کی تجویز بھی دی تھی، عمران خان نے کہا تھا کہ نئے آرمی چیف کا تقرر تازہ انتخابات کے بعد منتخب ہونے والے وزیر اعظم کی جانب سے کیا جانا چاہیے، انہوں نے کہا تھا کہ اہم تعیناتی نئی منتخب حکومت کے ذریعے کی جانی چاہیے۔ڈان کی جانب سے رابطہ کرنے پر وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے شریف برادران کے درمیان ہونے والی بات چیت پر کوئی رد عمل نہیں دیا۔

Related Articles

Back to top button