تحریک انصاف کا لانگ مارچ ہے یا ایک بھونڈا مذاق ہے؟


جلد انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ لیکر 28 اکتوبر کو لاہور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ عمران خان کی غیر موجودگی کی وجہ سے کہیں غائب ہو چکا ہے، دن کے وقت چند سو افراد پر مبنی ایک قافلہ کسی نہ کسی شہر سے نمودار ہوتا ہے اور کنٹینر سے روایتی تقریریں کرنے کے بعد اگلے روز تک کے لیے غائب ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی پارٹی قیادت کی جانب سے لانگ مارچ جاری رکھنے کے دعوے ایک بھونڈے مذاق سے کم نہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے مطابق انکا لانگ مارچ کامیابی کیساتھ پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا راولپنڈی اور اسلام آباد کی جانب گامزن ہے۔ دوری جانب اسلام آباد میں لانگ مارچ سے نمٹنے کی تیاریاں ابتدائی جوش و خروش کے بعد اب ماند پڑ چکی ہیں اور شہر میں جگہ جگہ نظر آنے والے سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد بھی اب کم ہو چکی ہے، شہر کے زیادہ تر راستے بھی کھلے ہوئے ہیں اور خوف کا ماحول ختم ہو چکا ہے۔

عمران پر وزیر آباد میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کا دوسرا مرحلہ بھی آٹھویں روز میں داخل ہو چکا ہے لیکن عمران کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنے یا احتجاج کی حتمی کال نہیں دی گئی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے تناظر میں عمران خان کسی جانب سے اشارے کے منتظر ہیں۔ یہ بھی خبر گرم ہے کہ صدرِ عارف علوی کے فوجی حلقوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے باعث عمران خان کو کہا جا رہا ہے کہ وہ راولپنڈی پہنچنے کا کوئی حتمی فیصلہ نہ کریں۔ خیال رہے کہ تین نومبر کو وزیرِ آباد میں عمران خان کے لانگ مارچ پر ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں عمران خان سمیت کئی افراد زخمی ہو گئے تھے۔ پی ٹی آئی نے لانگ مارچ چند روز روکنے کے بعد ایک ہفتہ قبل دوبارہ شروع کیا تھا جس کی قیادت شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور پرویز خٹک کو سونپی گئی تھی۔ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر پنجاب سے جب کہ پرویز خٹک خیبر پختونخوا سے مارچ لے کر اسلام آباد کی جانب بڑھ رہے ہیں، تاہم یہ قافلے انتہائی سست روی کا شکار ہیں۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر عمران خان اسلام آباد میں احتجاج کی کال کیوں نہیں دے رہے؟ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اب اتنا مؤثر نہیں رہا۔ جب یہ مارچ لاہور سے روانہ ہوا تھا اس میں کافی لوگ تھے۔ لیکن جوں جوں یہ قافلہ آگے بڑھتا گیا لوگ کم ہوتے گئے۔ سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ جب وزیرِ آباد میں لانگ مارچ پر حملہ ہوا تو اس کے بعد سے لوگ ڈرے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کم تعداد میں لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ بخاری کہتے ہیں کہ عمران چاہتے تھے کہ جس طرح 2014 میں چینی صدر کے دورۂ پاکستان سے قبل اُنہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔ اسی طرح سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان اور آرمی چیف کی تعیناتی کے دوران وہ حکومت اور اداروں پر دباؤ برقرار رکھیں۔ خیال رہے کہ سعودی ولی عہد کو رواں ماہ کے تیسرے ہفتے میں پاکستان آنا تھا، تاہم انہوں نے اپنا دورہ ملتوی کر دیا ہے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم کو رواں ماہ کے اختتام پر نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا اعلان کرنا ہے۔ عمران کا مطالبہ ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے اور اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ فوری انتخابات کے بعد نیا وزیرِ اعظم ہی اس تعیناتی کا اعلان کرے۔ البتہ وزیرِ اعظم شہباز شریف یہ واضح کر چکے ہیں کہ آئینِ کے تحت اُن کے پاس اختیار ہے کہ وہ افواجِ پاکستان کی جانب سے فراہم کیے گئے ناموں میں سے کسی ایک کو بطور آرمی چیف تعینات کر دیں۔ سلیم بخاری کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کا لانگ مارچ اب قسطوں میں ہو رہا ہے۔ کہیں شاہ محمود قریشی کچھ کارکنوں سے خطاب کر رہے ہوتے ہیں تو کہیں اسد عمر ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لہذٰا اس کا حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا۔ سلیم بخاری کے بقول ماضی میں عمران خان اشاروں پر چلتے رہے ہیں اور ماضی میں بھی اُن کو توقع تھی لیکن کسی بھی جانب سے اُنہیں کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔ ویسے بھی اب عمران نے امریکی سازش کے بیانیے سے یو یوٹرن لے لیا ہے۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ لانگ مارچ کے شرکا کی تعداد میں کمی نے عمران خان اور دیگر پارٹی قیادت کو پریشان کر دیا ہے۔ اس صورتحال کے سبب پارٹی کارکنان و سپورٹرز اور ارکان پارلیمنٹ میں بھی شدید مایوسی پائی جا رہی ہے۔ اس مایوسی کو دور کرنے کے لئے پارٹی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو یہ لالی پاپ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے کہ پس پردہ طے پانے والے معاملات کے نتیجے میں چند دنوں میں پانسہ پلٹ جائے گا۔ جس کے بعد حالات پی ٹی آئی کے لئے موافق ہوجائیں گے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق اس وقت عمران خان کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر لانگ مارچ کے شرکا کی تعداد اسی طرح کم ہوتی رہی تو راولپنڈی کا فائنل شو ٹھپ ہو جائے گا۔ لہٰذا پی ٹی آئی کے مایوس لوگوں کو متحرک کرنے کے لئے بند کمروں میں خوش کن یقین دہانیاں کرانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور انہیں یہ جھوٹی تسلیاں دی جا رہی ہیں کہ فائنل رائونڈ انہوں نے ہی جیتنا ہے جس کے معاملات طے پاچکے ہیں۔

Related Articles

Back to top button