بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے غیر فعال حکومتی کمیٹی دوبارہ بحال

بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی-ایم) کی جانب سے حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونے کے تقریباً ہفتے بعد اور پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کو منانے میں حکومتی ٹیم کی ناکامی کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے آخر کار بلوچستان کے مسائل کے لیے تشکیل کردہ خصوصی غیر فعال کمیٹی کو فعال کردیا ہے.
خیال رہے کہ بلوچستان سے متعلق مذکورہ کمیٹی کوئی 4 ماہ قبل تشکیل دی گئی تھی۔
بی این پی- ایم کے رکنِ قومی اسمبلی حسن بلوچ نے بلوچستان سے متعلق خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کی سربراہی کی جو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا تھا اور اس کی سربراہی خود اسپیکر اسمبلی نے کی تھی۔اجلاس کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری دستاویزات کے مطابق کمیٹی کے اراکین نے وزیر برائے بین الصوبائی تعاون ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی سربراہی میں4 رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تاکہ بلوچستان کے تمام مسائل سے متعلق جامع ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) تیار کیے جاسکیں۔یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ بی این پی-مینگل کا ایک نمائندہ اور حکومت کی مذاکراتی ٹیم کی سربراہ، وزیر دفاع پرویز خٹک کو ذیلی کمیٹی کی معاونت کے لیے خصوصی طو پر مدعو کیا جائے گا۔
سربراہ بی این پی-مینگل کی نمائندگی کرتے ہوئے ایم این اے حسن بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل 2006 سے شدید ہورہے ہیں اور ان پر فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے نواب اکبر بگٹی سے ملاقات کے بعد چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے دی گئی سفارشات کا جائزہ لینے کی تجویز دی۔حسن بلوچ نے تجویز دی کہ کمیٹی نے خاص طور پر بلوچ اضلاع میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو دیکھنے کے علاوہ ان کے اہلخانہ سے بھی ملاقاتیں کیں۔انہوں نے کہا کہ بی این پی نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ بلوچستان میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کو پبلک کیا جائے۔
واضح رہے کہ اگست 2018 میں تحریک انصاف اور بی این پی-ایم نے وفاق میں مخلوط حکومت بنانے کے لیے چھ نکاتی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ان چھ نکات میں لاپتہ افراد کی بازیابی، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، وفاقی حکومت میں بلوچستان کے لیے 6 فیصد کوٹے پر عمل درآمد، پانی کی شدید قلت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے افغان مہاجرین کی فوری وطن واپسی اور صوبے میں ڈیموں کی تعمیر شامل ہیں۔بی این پی ایم اس وقت سے ہی معاہدے پر عمل درآمد کا مطالبہ کررہی ہے۔
گزشتہ سال جون میں سردار اختر مینگل نے پہلی بار دھمکی دی تھی کہ اگر مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو وہ اتحاد چھوڑ دیں گے۔رواں ماہ 17 جون کو بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل گروپ کے صدر سردار اختر مینگل نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حکومت کے اتحاد سے اپنی جماعت کی علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔بعدازاں وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر پر مشتمل 2 رکنی حکومتی کمیٹی نے سردار اختر مینگل سے مذاکرات کیے گئے تھے جو بے نتیجہ ختم ہوگئے تھے۔
پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ بلوچستان اور اس کے عوام کو درپیش معاشی و اقتصادی مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ اور عوامی نمائندے بہترین آپشن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور اس کے مسائل ہمیشہ ہی حکومت کی اولین ترجیح رہے ہیں جس نے یہ عزم کیا کہ پاکستان کی ترقی، صوبے کی ترقی اور امن سے وابستہ ہے۔ اسدقیصر نے کہا کہ وفاقی محکموں نے بلوچستان کے 6 فیصد روزگار کوٹے پر فوری عملدرآمد سے متعلق ایگزیکٹو آرڈر کا اجرا بلوچستان کے مسائل کے حل میں وزیراعظم عمران خان کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں پارلیمانی نظام میں پارلیمانی کمیٹیاں مشاورتی کردار ادا کرتی ہیں اور یہ کمیٹی بلوچستان کو درپیش مسائل کے حل کے بہترین حل کے لیے کی ہر ممکن تجاویز پیش کرنے کی کوشش کرے گی۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ سی پیک گلگت بلتستان سے نکلا ہے اور بلوچستان میں اختتام پذیر ہوتا ہے جس سے صوبے کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے لہذا پارلیمانی کمیٹی مقامی افراد کو سی پیک کے اصل مفادات کی منتقلی کی ضرورت پر بھی غور کرے گی۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری جو کمیٹی کے رکن ہیں اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت صوبے میں امن اور ترقی کے مسائل کے حل پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔
وزیر بین الصوبائی روابط ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ بلوچستان اور اس کے مسائل کا حل ملک کے پارلیمانی اراکین کی اولین ترجیح رہا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اس کمیٹی کو مزید موثر بنانے کے لیے جامع ٹی او آر ضروری ہے۔
پرویز خٹک نے کہا کہ حکومت، بلوچستان کے عوام کے دکھوں کا ازالہ کرنے کے لیے مختلف اقدامات کررہی ہے اور مستقبل میں حل جاری رکھنے کی یقین دہانی بھی کروائی۔
خصوصی کمیٹی برائے بلوچستان کے دیگر اراکین میں اسلم بھوتانی، صابر قائم خانی اور احسان اللہ ریکی شامل ہیں۔کمیٹی اراکین نے زور دیا کہ پارلیمنٹ کو صوبے میں دہائیوں سے موجود مسائل کے حل میں کردار ادا کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ سی پیک بلاشبہ پاکستان اور صوبے کے لیے گیم چینجر ہے لیکن حکومت کو صوبے کے عوام کو ان کے حق کی ادائیگی کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔ساتھ ہی انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کی قیادت میں کمیٹی پر اعتماد کا اظہار بھی کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button