باجوہ اور فیض کے جانے کے بعد عمران کے لاڈ کون اٹھائے گا؟

جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی رخصتی نے صحیح معنیٰ میں عمران خان کو بے سائبان کر دیا ہے، اور فوج کے بالائی طبقے میں اب موصوف کے لاڈ اٹھانے والا کوئی نہیں رہا جس کا ثبوت آنے والے دن فراہم کریں گے۔ ائی ایس آئی کے وہ افسران جن کی تبدیلی کا مطالبہ عمران خان کرتے رہے ہیں، وہ کہیں جاتے نظر نہیں آتے، اب شاید عدالتیں بھی خان صاحب کے لئے آئین کو از سرِ نو تحریر کرنے سے گریز کریں، اس صورت حال میں موصوف کو وہی کرنا چاہئے جو وہ کہہ رہے ہیں، یعنی اپنی صوبائی اسمبلیاں توڑ کر فوری عام انتخابات کے انعقاد کی کوشش کی جائے، مگر اس منصوبے میں ایک ہی رکاوٹ ہے، چودھری پرویز الہٰی، جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ایک بار وہ اس کرسی سے اٹھ گئے تو پھر کوئی ’جادو کی چھڑی‘ ہی دوبارہ انہیں اس کرسی پر بٹھا سکتی ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی کہتے ہیں کہ جادو کی یہ چھڑی جسے چاہتی ہے سُلا دیتی یے اور جب چاہتی ہے اٹھا دیتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جادو کی چھڑی کا خیال ایک حالیہ تقریبِ سعید دیکھ کر آیا، جس میں ایک صاحب بہ ظاہر سادہ سی اٹھارہ انچ کی چھڑی ایک دوسرے صاحب کے حوالے کر رہے تھے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ درحقیقت یہ چھڑی اتنی معصوم نہیں ہے۔ اس چھڑی نے جب چاہا پوری قوم کو سُلا دیا، اور جب چاہا جب چاہا کروڑوں لوگوں کو دو پایوں کے منصب سے معزول کر دیا۔ یہ چھڑی قوم کو جگا بھی سکتی ہے اور اس کی رگوں میں لہو بھی جاری کر سکتی ہے، یہ تو صاحبِ عصا پر منحصر ہے کہ وہ ہیری پوٹر بننا چاہتا ہے یا موسیؑ کی سنت پرچلنے والا۔بہرحال، ہماری رجائیت پسندی ہمیں حافظ صاحب سے اچھی امید باندھنے پر اکسا رہی ہے۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ باجوہ صاحب سبکدوش ہو گئے، انہوں نے چھ سال جادو کی چھڑی لہرائی، اور ریاست و سیاست کو اپنے سحر میں گرفتار رکھا۔ پہلے نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے ایک برہنہ کھیل کی سربراہی کی، عدالتوں کے بازو مروڑے، میڈیا کا ٹینٹوا دبایا، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے سرکش راہ نمائوں کے گلے میں نیب کی رسی ڈال کر گھسیٹا، اور ایک فراڈ الیکشن کے نتیجے میں عمران خان کو وزیرِ اعظم کی کرسی تک پہنچایا۔ باجوہ صاحب پانچ سال تک پروجیکٹ عمران کے منیجر رہے، ہمیں بتایا گیا کہ یہ ہائی برڈ نظام اب کم از کم پندرہ سال تک یونہی چلے گا، اور باجوے کے بعد فیض حمید، پراجیکت عمران کے کئیر ٹیکر بنیں گے، اور ملک میں عملی طور پر یک جماعتی نظام رائج ہو جائے گا۔ لیکن پھر جب عمران نے فوجی تعیناتیوں میں مداخلت شروع کی تو ادارے کے کان کھڑے ہو گے اور باجوہ صاحب کی سربراہی میں فوج نے سیاست سے دست کش ہونے کا اصولی فیصلہ کر کیا۔ چنانچہ کچھ ہی دن میں خاں صاحب کو وزیرِ اعظم ہائوس خالی کرنا پڑا۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آدھا ملک تو پہلے ہی باجوہ صاحب سے ناخوش تھا، اب باقی آدھا ملک بھی ناراض ہو گیا، یہ کل ملا کر بنا سو فی صد، یعنی پورا ملک۔ نواز شریف، آصف زرداری اور ان کے حامی تو باجوہ صاحب سے اپنی ناراضی کا اظہار کسی قاعدے سے کرتے تھے، مگر عمران اور ان کے ساتھی تو اپنی تربیت اور عمرانڈو طبیعت کے عین مطابق باقاعدہ گالیوں پر اُتر آئے ہیں، ان کی ریٹائرمنٹ والے دن بھی پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر دشنام آمیز ٹرینڈز چلائے ۔بے شک، باجوے نے نئے آرمی چیف کو مشکل ترین کام سونپا ہے، انہیں اب ادارے کی ساکھ بحال کرنے اور اسے سیاسی تنازعات سے لا تعلق کرنے کےلئے اوور ٹائم لگانا پڑے گا۔ باجوے نے جاتے جاتے اقرارِ جرم بھی کر لیا، فرمانے لگے کہ ہاں ہم وردی پہن کر حلف شلف توڑتے رہے ہیں، لیکن آئندہ ایسا نہیں ہو گا، یہ اعتراف جرم کرتے وقت نہ تو انہوں نے خود کو کسی سزا شزا کے لئے پیش کیا، اور نہ ہی ہمارے ذہن میں کوئی ایسا مفسد خیال آیا، باجوہ ڈاکٹرائن ملک کے چھ سال کھا گیا سو کھا گیا، اللہ اللہ خیر سلا۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ہم مزاجاً جانے والوں کی اچھی باتوں کو یاد کرتے ہیں، مگر اب کیا کیا جائے کہ باجوہ صاحب نے زیادہ گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ باجوے کی طرح فیض حمید بھی گھر چلے گئے، ابھی سال پہلے تک فوج کے اندر اور باہر سب قائل تھے کہ موصوف اس ملک پر اگلے چیف بن کر نازل ہوں گے، مگر بہ قول بلھے شاہ ’میں نہاتی دھوتی رہ گئی‘۔ جس پراجیکٹ عمران کے تحت فیض حمید کو چیف لگنا تھا وہ ڈاکٹرائن ہی دھڑام سے اوندھے منہ نیچے جا گرا۔ بہت بے آبرو ہو کر اس کوچے سے فیض حمید کے نکلنے پر سب سے معتبر تبصرہ تو جسٹس شوکت صدیقی ہی کر سکتے ہیں، سو فرماتے ہیں ’’فیض صاحب، آپکی آئین شکنی، سازشیں، چالاکیاں، مکاریاں، فرعونیت، گھمنڈ اور کئی سال کی محنت کسی کام نہ آئی… لیکن ابھی قوم کا حساب باقی ہے۔ـ‘‘

سینئر تجزیہ کار جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں: جج صاحب ہم آپ کے لفظ لفظ سے متفق ہیں، بس یہ ’حساب شساب‘ رہنے دیں، کہ اس خواہش میں آپ پہلے بھی بے حساب نقصان اُٹھا چکے ہیں۔ فیض حمید کی رخصتی نے صحیح معنیٰ میں عمران خان کو بے سائبان کر دیا ہے، بلکہ باجوہ صاحب کے ہوتے بھی عمران خان کو ایک خاص نوع کا تحفظ حاصل تھا، کیوں کہ اپنا مارے بھی تو چھائوں میں ڈالتا ہے، وہ معاملہ اب نہیں ہے، ادارے کے بالائی طبقے میں اب عمران خان کے لاڈ اٹھانے والا کوئی نہیں رہا جس کا ثبوت آنے والے بے مہر دن فراہم کریں گے۔

Related Articles

Back to top button