پاکستانی فوج کا سیاست سے لاتعلق ہونا ممکن کیوں نہیں؟

فوجی قیادت کی جانب سے سیاست سے لاتعلقی اختیار کرنے کے بار بار کے اعلانات کے باوجود تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کے سیاسی مفادات اتنے زیادہ ہیں کہ اسکا سیاست سے لاتعلق ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز پہلے جنرل باجوہ نے یو اے ای کے اخبار گلف نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ فوج کا یہ عزم ہے کہ وہ مستقبل میں غیر سیاسی رہے گی۔ انکا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے عوام اور فوج کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے اور سیاسی استحکام بھی آئے گا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ انہیں فوج، عوام اور پاکستان کے فائدے کی یہ بات اپنے چھ سالہ دور اقتدار میں سمجھ کیوں نہیں آئی خصوصاً جب وہ پاکستانی سیاست کو گھما رہے تھے۔

 

پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر اب تک فوج قریب 30 برس تک ملک پر براہ راست حکمرانی کرتی رہی ہے جبکہ جمہوری ادوار میں بھی بالواسطہ سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ خارجہ، سلامتی سمیت کئی امور جی ایچ کیو نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جب کہ معاشی معاملات میں بھی مداخلت جاری ہے۔ ایسے میں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستانی فوج سیاست کی دلدل میں گھٹنوں گھٹنوں گھسی ہوئی ہے۔

 

پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصر ڈاکٹر عمار علی جان کا کہنا ہے کہ فوج کی جانب سے غیر سیاسی ہونے کے تمام اعلانات کے باوجود فوج کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ سیاست سے لاتعلق ہو۔ انہوں نے بتایا کہ فوج پاکستان کی سیاست میں سب سے بڑی سٹیک ہولڈر ہے اور اس کا سیاست سے لا تعلق ہونا بالکل ممکن نہیں۔ پاکستان کا یہ ساختی مسئلہ ہے۔ فوج کو شروع سے ہی اختیارات زیادہ حاصل ہیں، جس کی وجہ سے سے فوج نے اندرونی وبیرونی اور علاقائی طور پر اتنے مراسم قائم کر لیے ہیں کہ اب وہ سیاست کیے بغیر رہ نہیں سکتی۔ عمار جان کے مطابق عالمی طاقتیں بھی اسی لیے سویلین حکومت کی بجائے جرنیلوں سے ڈیل کرنا چاہتی ہیں۔ اور اب تو ان کا معاشی معاملات میں بھی عمل دخل ہے، جس کی ایک مثال جنرل باجوہ کی طرف سے آئی ایم ایف کی قسط کے لیے فون کرنا تھا۔

 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست تب گڑبڑ ہوتی ہے جب فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے اور سیاسی پارٹیوں کی توڑ پھوڑ کرتی ہے۔ لیکن اس مداخلت کے خلاف اب کچھ فوجی افسران بھی بات کرتے ہیں۔ میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ فوج کو اپنا آئینی کردار ادا کرنا چاہیے اور اس کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر فوج سیاست میں آئی ہے تو اس میں سیاست دانوں اور عدلیہ کا بھی قصور ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں مارشل لاء لگا، تو وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ یہ سیاستدان ہی تھے جو چیف آف آرمی سٹاف کے دروازے پر جا کر ایک دوسرے کی برائیاں کرتے تھے۔ اعجاز اعوان کے مطابق اس حوالے سے عدلیہ کا رویہ بھی منفی رہا۔ ججوں نے عبوری آئین اور لیگل فریم ورک کے تحت حلف لیا اور نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لا کو جائز قرار دیا۔ لہذا صرف جرنیلوں پر تنقید کرنا مناسب نہیں ہے۔

 

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کا آرمی چیف اور اسٹیبلشمنٹ حکومتیں بناتے اور گراتے بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اہم ملکی معاملات کو چلاتے بھی ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج صرف اپنا آئینی کردار ادا کرے۔ سلامتی کے امور پر آرمی چیف وزیر اعظم کا مشیر اعلیٰ ہے اور اس کا یہی کردار ہونا چاہیے نہ کہ وہ حکومت کو ڈکٹیشن دیتا پھرے۔ نامور صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری جنرل ناصر زیدی مطلق العنان فوجی آمروں کے خلاف ہمیشہ لڑتے رہے، جس کی وجہ سےانہیں قیدو بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں انہیں آزادی اظہار رائے کے لیے جدوجہد کرنے پر کوڑوں کی سزا دی گئی۔ ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ فوجی جرنیلوں نے ہمیشہ سیاسی معاملات میں مداخلت کی۔ اس کا تاریخی تناظر بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے میجر جنرل سکندر مرزا نے ریپبلکن پارٹی بنوائی۔ اس کے بعد ایوب خان نے جب بنیادی جمہوریتوں کے الیکشن کرائے، تو اس کو سیاسی جماعت کی ضرورت پڑی، جس کے لیے اس نے کنونشن لیگ بنوائی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کنونشن لیگ کے ذوالفقار علی بھٹو بھی عہدے دار رہے۔ جنرل یحییٰ کے دور میں راؤ فرمان علی اور جنرل پیرزادہ سمیت کچھ فوجی افسران سیاست میں ملوث رہے جبکہ جنرل ضیاء نے اپنے دور میں جونیجو لیگ بنوائی۔ جنرل حمید گل اور انیس سو اٹھاسی میں فوج کے سربراہ اسلم بیگ نے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا۔

 

ناصر زیدی کے مطابق ٹاپ جرنیلوں کے علاوہ میجر اور نچلے درجے کے کچھ اور فوجی افسران بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں سیاسی طور پر متحرک رہے اور ان کی حکومت کو گرانے کی کوشش بھی کی۔ بعد میں نواز شریف اور غلام اسحاق خان دونوں کو مسند اقتدار سے جنرل وحید کاکڑ نے نکالا۔ جنرل مشرف کے دور میں ایک طرح سے آئی ایس آئی کے ڈپٹی چیف جنرل احتشام ضمیر نے پیٹریاٹ اور ق لیگ بنوانے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا، سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ فوج صرف عسکری یا سیاسی طاقت نہیں بلکہ وہ ایک معاشی طاقت بھی ہے اور معیشت کے ایک بڑے حصے پر اس کا قبضہ ہے۔ لہذا پاکستانی سیاست سے اس کی مداخلت ختم ہونا نا ممکن نظر آتا ہے۔

Related Articles

Back to top button