نئی فوجی قیادت کو ڈنڈے کا استعمال بند کیوں کرنا ہو گا؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ میرٹ پر نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد فوج کو سیاست دانوں کو اپنے ڈنڈے سے ہانکنے اور سیاستدانوں کو فوج کے ڈنڈے سے ہانکے جانے کی تاریخ کو دفن کرنا ہو گا کیونکہ اسی میں فوج اور پاکستان کی بقا ہے۔ ماضی پاک فوج کے ڈنڈے اور آئی ایس آئی کو جس طرح گاہے گاہے سیاسی جوڑتوڑ، حکومتیں بنانے اور گرانے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کیا گیا، اُسے اب اُس تاریخ کا حصہ بن جانا چاہئے جسے بحیثیت قوم ہمیں اب کبھی نہیں دہرانا۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد ایک طرف اگر فوج اور آئی ایس آئی کو اپنے متنازعہ کردار سے پیچھے ہٹنا ہے تو دوسری جانب یہ سیاستدانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے سیاسی فیصلوں کیلئے نہ تو فوج اور آئی ایس آئی کی طرف دیکھیں اور نہ ہی ان اداروں کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کریں۔

 

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ نئی فوجی قیادت کیلئے سب سے بڑا چیلنج فوج کی عوام میں عزت کو بحال کرنا ہے جس کیلئے سیاست سے کنارہ کشی لازم ہے۔ جب فوج یا آئی ایس آئی سیاسی تنازعات کا حصہ بن جائے تو اُن کے بارے میں بھی سیاست ضرور ہوگی۔ کوئی ایک سیاسی جماعت اور اُس کے سپورٹرز اگر ان اداروں کے حق میں بات کریں گے تو کوئی دوسری سیاسی جماعت یا گروہ ان پر تنقید کرے گا۔ انکا کہنا ہے کہ ویسے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست میں مداخلت کی وجہ سے ہدف تنقید بنی رہی لیکن جو کچھ ہم نے گزشتہ سات آٹھ مہینوں کے دوران دیکھا اور سنا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جس عمران کو اقتدار میں لانے کے لئے فوج نے کھلم کھلا سیاسی انجینئرنگ کے تمام ریکارڈ توڑے، اُس نے اپنی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اُسی اسٹیبلشمنٹ پر الزامات کی بھرمار کر دی، موصوف اور انکی جماعت نے سوشل میڈیا کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ اور فوجی قیادت کے خلاف درجنوں ٹرینڈز چلائے، اُنہیں غدار کہا، اُن پر مبینہ رجیم چینج کی امریکی سازش کو پاکستان میں کامیاب کروانے کا الزام دھرا، اُنہیں جانور کہا، اور گالم گلوچ تک کی گئی۔

 

انصار عباسی یاد دلاتے ہیں کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے تسلیم کیا کہ فوج کے ادارے نے گزشتہ سال خود کو سیاست سے الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اب اس فیصلے پر سختی سے عمل ہو گا۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے پیش رو کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ فوج سیاست سے دور رہے گی اور ساتھ ہی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ادارے کے وقار اور آئین کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ چاہے تو وہ اس قانون کو ختم کرنے کیلئے آزاد ہے، کیونکہ قانون سازی فوج کا کام نہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کا کام وفاقی حکومت کے ساتھ معلومات شیئر کرنا اور اس کے احکامات ماننا ہے، نہ کہ اسے ڈکٹیشن دینا۔ نئے چیف کا یہ بیان نہایت خوش آئند ہے۔ اب اُنہیں اپنے تین سالہ دور میں اس موقف پر سختی سے کاربند رہنا ہوگا۔

 

انصار عباسی کہتے ہیں کہ پاک فوج اور آئی ایس آئی ملک کے دفاع اور سیکورٹی کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ ایسے اداروں کا اندرونی طور پر تنازعات اور خصوصاً سیاسی تنازعات سے پاک رہنا بہت ضروری ہے۔ ماضی میں فوج کے ڈنڈے اور آئی ایس آئی کو جس طرح گاہے گاہے سیاسی جوڑتوڑ، حکومتیں بنانےو گرانے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کیا گیا، اُسے اب پاکستان کی اُس تاریخ کا حصہ بن جانا چاہئے جسے بحیثیت قوم ہمیں اب کبھی نہیں دہرانا۔ ویسے ہمارے سیاستدانوں کے بیانات جو مرضی ہوں، ماضی قریب تک تقریباً تمام بڑی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی نظریں فوج پر ہی مرکوز رہیں کہ وہاں سیاست کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے! ہماری سیاسی جماعتوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کا سلیقہ آنا چاہئے۔ اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک کی بہتری کے لئے فیصلے کرنے چاہئیں بلکہ باہمی سیاسی تنازعات اور اختلافات پر بھی آپس میں مل بیٹھ کر گفتگو کریں، اس کیلئے پارلیمنٹ کے فورم کو استعمال کریں، گالی اور اختلاف برائے اختلاف کی بجائے دلیل اور اصول کی بنیاد پر سیاست کریں۔سیاست دانوں کو حکومت میں آ کر آئین کے مطابق حکمرانی کرنے کا گر سیکھنا چاہئے تاکہ جو کچھ آئین میں لکھا ہے اس کے ثمرات عوام کو بھی ملیں اور جو خرابیاں ہمارے گورننس سسٹم میں موجود ہیں اُنہیں دور کیا جائے یہی بہتر طرزِحکمرانی کا بہترین نسخہ ہے ،جس پر سیاستدانوں کو عمل کرنا چاہئے۔

Related Articles

Back to top button