فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاسی انجینئرنگ سے کب باز آئے گی؟


معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں جولائی 1977میں کھڑی تھی۔ 45 برس پہلے بھی حکومتوں کا خاتمہ اپنی میعاد پوری ہونے سے پہلے کیا جاتا تھا، آج بھی وہی انداز ہے۔ کل بھی فری اینڈ فیئر الیکشن پر سوالیہ نشان تھا اور آج بھی ہے۔ کل بھی الیکشن ہارنے والے فوری دھاندلی کا الزام لگاتے تھے، اور ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ کی بات کرتے تھے، اور آج بھی کرتے ہیں۔ کل بھی آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی تقرری موضوع بحث ہوتی تھی، آج بھی ہے۔ کل بھی ہماری غلام عدلیہ نظریۂ ضرورت کا استعمال کرتی تھی، اور آج بھی کرتی ہے۔ کل بھی الیکشن کمیشن متنازع تھا اور آج بھی ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور اب بھی کچھ سیکھنے کو تیار نہیں ہیں لہذا وہی غلطیاں باربار دہرائی جاتی ہیں جن کا نتیجہ ہم بھگت چکے ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ 45 برس قبل تب کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بنیادی سیاسی تنازع ’’فری اینڈ فیئر الیکشن‘‘ تھا۔ ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کا نہ ہونا تھا۔ کل اور آج میں فرق صرف اتنا تھا کہ تب تمام تر تلخیوں اور کشیدگی کے باوجود دونوں فریقین میں مذاکرات ہوئے اور وہ کامیاب بھی ہوئے مگر پھر بھی 5؍جولائی 1977ء کو جنرل ضیا نے مارشل لاء نافذ کردیا جس سے ایک نہ ختم ہونے والے سیاسی بحران نے جنم لیا جو تاحال جاری ہے۔ اسی لیے کل بھٹو کہتے تھے کہ مجھے امریکہ نے نکالا ہے، اور آج عمران خان کہتا ہے۔
آج سیاسی تلخی نے تقریباً دشمنی کی شکل اختیار کرلی ہے اور دونوں فریقین میں مذاکرات کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا لہٰذا دونوں یا تو عدلیہ کی طرف دیکھتے ہے یا ’’ایمپائر‘‘ کی طرف۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ جس ملک میں ہم آج دن تک شفاف الیکشن نہ کرا سکے، اور ایک آزاد الیکشن کمیشن نہ بنا سکے، وہاں جمہوریت کی جڑیں کمزور سے کمزور ہی ہونا تھیں۔ اپنے اپنے مطلب کے نتائج حاصل کرنے اور اقتدار کو طول دینے کیلئے اداروں کو مضبوط اور خود مختار نہیں بنایا گیا۔ تاریخ کا ایک اور سبق جو ہم نے نہیں سیکھا، وہ ’’اداروں‘‘ کی سیاست میں غیر ضروری مداخلت ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ باقی دنیا کے مقابلے میں ہمارے ہاں دو تقرریاں ہمیشہ بحث و مباحثے کا حصہ رہی ہیں۔

ایک آرمی چیف کی تقرری اور دوسری آئی ایس آئی چیف کی تقرری! جب ملک میں مارشل لالگتا ہے تو چیف اپنی میعاد میں خود ہی توسیع کرتے رہتے ہیں۔ جب سویلین حکومت ہوتی ہے تو وہ اپنے پسند کے جنرل کو لے کر آتی ہے۔ اس خیال سے کہ وہ ان کیلئے خطرہ نہیں بنے گا۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سات سینئیر جنرلز پر جنرل ضیاء الحق کو ترجیح دی اور آرمی چیف بنایا، لیکن ضیا نے نہ صرف بھٹو کا تختہ الٹ دیا بلکہ عدالتی فیصلے کے ذریعے انکا جوڈیشل مرڈر بھی کروا دیا۔ تاریخ سے سبق سیکھا ہوتا تو شاید 12 اکتوبر 1999ء نہ ہوتا۔ نواز شریف نے پرویز مشرف کو تین جرنیلوں پر ترجیح دی جن میں ایک جنرل علی قلی خان بھی تھے۔ خیال یہ تھا کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے مگر کیا کریں اس ’’سوچ‘‘ کا جو بار بار اس پر مجبور کرتی ہے۔

مشرف بھی تقریباً وہی کرنے والے تھے جو ضیاء الحق نے بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔ نواز شریف کو عمر قید کی سزا ہوئی تو حکومت نے عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کی اپیل کی مگر پھر سعودی عرب کی مداخلت پر 10؍سالہ معاہدہ کیا، سیاست میں نہ آنے اور ملک سے باہر رہنے کا! اب وہ بھٹو تو تھے نہیں کہ انکار کر دیتے ورنہ تو غلام مصطفیٰ جتوئی یہی فارمولہ لے کر جنرل ضیاء کے پاس گئے تھے اور عرب ملک پناہ دینے کو تیار تھے۔

مظہر عباس کے بقول تاریخ سے سبق ہماری ریاست اور ریاستی اداروں نے بھی نہیں سیکھا۔ بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کیا تو ضیاء کا خیال تھا کہ وہ عوام میں غیر مقبول ہیں لہٰذا حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد کو الیکشن میں کامیابی مل جائے گی، اسی لئے 90؍روز میں الیکشن کا اعلان کردیا لیکن جب مارشل لاء لگا اور بھٹو کو رہا کیا گیا تو وہ مقبولیت کے عروج پر نظر آئے جس کے بعد ضیاء الحق کو پی این اے کے بعض رہنمائوں اور دائیں بازو کے صحافیوں اور دانشوروں نے الیکشن ملتوی کرنے کا مشورہ دیا اور پہلے ’’احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگا۔ یوں ملک میں 11 سال مارشل لاء اس خوف میں لگا رہا کہ پی پی پی الیکشن جیت جائے گی۔ اس کے بعد سیاست میں اداروں نے اپنے من پسند رہنمائوں کو اوپر لانے، جماعتوں کو بنانے اور توڑنے کا عمل شروع کیا جس کی بڑی واضح اور ناقابلِ تردید مثالیں ہمیں ہر الیکشن میں نظر آتی ہیں۔
چاہے وہ 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام ہو، 1990ء میں انہی رہنمائوں میں پیسے کی تقسیم ہو، بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہو، آئین میں 58-2(B) کے ذریعے حکومت کا خاتمہ ہو۔ ایک طویل فہرست ہے سیاسی انجینئرنگ کی، جس کی کڑیاں 2018ء کے الیکشن تک جاتی ہیں اور اب موجودہ سیاسی بحران بھی جاکر اکتوبر 2021ء میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے تبادلے کے تنازع سے جڑا دکھائی دیتا ہے۔ گو کہ اس حوالے سے بہت سی باتیں میڈیا میں آچکی ہیں، عمران خان اس کی تردید کرتے ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ حالیہ تاریخ میں جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت کی معیاد میں توسیع کی گئی۔ آج عمران خان کی زبان میں تلخی کیوں ہے، وہ باربار ’’نیوٹرل‘‘ کی کیوں مخالفت کررہے ہیں؟ وہ دراصل یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں امریکہ کے ساتھ ساتھ ’’نیوٹرلز‘‘ کا بھی کردار ہے۔ دوسری طرف موجودہ حکومتی اتحادی بشمول مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو خوف رہا کہ اگر نومبر 2022ء سے پہلے عمران حکومت کا خاتمہ نہ کیا گیاتو وہ اپنے پسند کے ’’نیوٹرل‘‘ کو لا کر ان کی سیاست کا خاتمہ کردے گا۔ لہٰذا آج 45؍سال بعد بھی سیاست میں ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں 1977 میں تھے۔

Related Articles

Back to top button