کیا عمران خان گرفتاری کے بعد مزید خطرناک ثابت ہونگے؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کی بڑھتی ہوئی قانون شکنیوں، ریاستی اداروں پر الزام تراشیوں اور پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس میں آئے روز ہونے والے تصادم سے ان افواہوں میں تیزی آئی ہے کہ انتخابی مہم سے قبل درجنوں مقدمات میں سے کسی ایک میں عمران خان کی گرفتاری عمل میں آسکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے بعد نہ صرف تحریک انصاف کے بکھرنے کا خدشہ موجود ہے بلکہ خان کی جعلی مقبولیت کا پول بھی کھل جائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اپنی حکمت عملی سے پارٹی میں متحارب رہنماؤں کی کسی صورت اکٹھا کر رکھا ہے لیکن ان کے پابند سلاسل ہوتے ہی پی ٹی آئی رہنماؤں کی پارٹی پر قبضے کی خواہش دوبارہ اٹھ سکتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہو سکتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ گرفتاری کی صورت میں عمران خان تو خطرناک ثابت نہیں ہوں گے البتہ رانا ثنااللہ کے ہاتھوں گرفتاری سے خان کو بہت سے خطرات ضرور لاحق ہیں۔

اگرچہ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم نے عمران خان کی گرفتاری سے متعلق کوئی واضح بیان نہیں دیا ہے تاہم وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے گذشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم گرفتاری کا سوچیں بھی تو عمران خان کو ضمانت مل جاتی ہے، ہم کون ہیں جو انھیں گرفتار کرنے کا منصوبہ بنائیں۔‘

دوسری طرف چیئرمین تحریک انصاف اپنی گرفتاری سے متعلق کئی بار پیشگوئی کرتے رہے ہیں اور گذشتہ روز انھوں نے ’لندن پلان‘ کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ زمان پارک آپریشن کا مقصد ’میری عدالت پیشی یقینی بنانا نہیں بلکہ مجھے اسلام آباد میں گرفتار کر کے جیل بھیجنا ہے۔‘ساتھ ہی ساتھ عمران خان اپنی گرفتاری سے جڑے دلائل بھی دیتے ہیں کہ ’وہ یہ اس لیے کرنا چاہتے ہیں کہ میں الیکشن مہم نہ چلاؤں۔ یہ میچ کھیلنا چاہتے ہیں لیکن کپتان کے بغیر۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر میں جیل چلا جاؤں یا نااہل ہو جاؤں تو ان کے میچ جیتنے کی امکانات بہتر ہو جائیں گے۔‘

بی بی سی کی ایم رپورٹ کے مطابق ان دعوؤں کی حقیقت ایک طرف لیکن یہ بحث بھی آہستہ آہستہ زور پکڑ رہی ہے کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو اس کا سیاسی فائدہ آخر کسے ہوگا؟ماضی میں جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے قریب تھی تو عمران خان نے خود کہا تھا کہ وہ حکومت سے نکل جانے کے بعد ‘زیادہ خطرناک’ ہو جائیں گے اور تجزیہ کاروں کے نزدیک انھوں نے بطور اپوزیشن لیڈر اپنے اس دعوے کو کسی حد تک درست بھی ثابت کیا۔

سو اب سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان جیل جاتے ہیں تو آیا وہ اپنے سیاسی حریفوں کے لیے پہلے سے زیادہ ’خطرناک‘ ثابت ہو سکتے ہیں اور کیا حکومت کی سوچ کے برعکس اُن کی گرفتاری ان کی جماعت کی مقبولیت اور سپورٹ بیس میں مزید اضافے کا باعث بنے گی؟

اس پر تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پچھلے 11 مہینوں میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تحریک انصاف مخالف ہر اقدام نے عمران خان کو عوام میں مزید مقبول کیا ہے۔ ’عمران خان کے گرفتار ہونے کے بعد اُن کی مقبولیت کا گراف اگر فی الوقت 70 فیصد پر ہے تو وہ 100 فیصد پر چلا جائے گا۔‘فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت حکومت ایجنسیز چلا رہی ہیں۔ عمران خان کا مقابلہ طاقت سے ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے ملک میں سیاسی خلا پیدا ہو رہا ہے اور اسی لیے ہر گزرتے دن کےساتھ موجودہ حکومت نیچے کی طرف جا رہی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’اس وقت اسٹیبلیشمنٹ جتنی غیر مقبول ہے اتنی ماضی میں کبھی نہیں تھی اور ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کی ریٹنگ سیاسی لوگوں سے نیچے ہے۔‘

دوسری جانب تحریکِ انصاف کی سیاسی مخالف مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما احسن اقبال فواد چوہدری کے اس دعوے کو مسترد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف وہ جماعت ہے جس میں کافی اندرونی اختلافات ہیں۔ ’عمران خان کی موجودگی پارٹی کے اِن مسائل پر پردہ ڈالنے کا باعث بنتی ہے۔ اگر وہ نہیں ہوں گے تو یہ اختلافات کھل کر سامنے آ جائیں گے۔‘انھوں نے مزید کہا عمران خان کی گرفتاری سے عوام میں اس تاثر کی بھی نفی ہو گی جو عمران خان کے اپنے کارکنوں میں پیدا کیا ہے یعنی ’میں وہ شخص ہوں جس نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی۔‘

دوسری طرف سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ نے بتایا کہ ’یہ ایک قانونی عمل ہے اور اس کو حکومت کے فائدے یا نقصان سے ہٹ کر قانون کی عملداری کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘ان کے مطابق نواز شریف دو سو سے زیادہ پیشیاں بھگت سکتے ہیں، قید کاٹ سکتے ہیں تو کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

سیاسی تجزیہ کار احسن اقبال کے اس موقف سے متفق دکھائی نہیں دیتے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے نتیجے میں پی ڈی ایم کو سیاسی طور پر نقصان ہو گا۔’سیاسی گرفتاریاں کارکنوں اور سیاسی پارٹیوں میں مزید جوش کا باعث بنتی ہیں جس کے الیکشن پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اب تک جو پارٹیاں اقتدار میں آئی ہیں، ان کی لیڈر شپ کی قبولیت دو جگہوں پر نوٹ ہوتی ہے، ایک عوام میں اور دوسرا اسٹیبلشمنٹ میں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’عمران خان نے دوسری جگہ پر اپنے آپ کو دفاعی محاذ پر کھڑا کیا ہوا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی حقیقت بھی ہے اور ان کی قبولیت کے بغیر کسی بھی پارٹی کا اقتدار میں آنا مشکل ہے۔

’دوسری جانب ان کا سیاسی کیس اس حوالے سے عوام میں مضبوط ہے کہ وہ حکومت کو ٹارگٹ کرتے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی کا کیس موجود نہیں ہے کہ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں اچھے انداز میں پرفارم کیا۔‘

عمران خان کی عدالت میں پیش نہ ہونے کے معاملے پر تحریکِ انصاف کا موقف ہے کہ ایک جانب جہاں ان کے سربراہ کی جان کو خطرہ ہے وہیں حکومت کی جانب سے ان پر جھوٹے مقدمات کی بھرمار کر دی گئی ہے اور یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی انسان کے لیے ان کے حوالے سے عدالتوں میں پیش ہونا ممکن نہیں۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں تحریکِ انصاف کے اپنے دورِ حکومت میں بھی اپوزیشن کے ساتھ اس کا رویہ کچھ ایسا ہی رہا تھا سو یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا مسلم لیگ ن وہی کچھ کر رہی ہے جو تحریک انصاف نے ماضی میں اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ کیا؟۔‘

اس بارے میں احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ’عمران خان کا اس وقت بیانہ فقط یہ ہے کہ فوج میرا ساتھ دے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ فوج نیوٹرل رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ فوج ان کے اقتدار کی راہ دوبارہ ہموار کرے۔‘

تجزیہ کار حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ بظاہر یہی لگتا ہے کہ جو مسلم لیگ ن کے ساتھ بطور اپوزیشن ہوا وہی اب پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن یہاں یہ بات خاصی اہم ہے کہ عوام ان دونوں پارٹیوں کی لڑائی کو کیسے دیکھتے ہیں۔‘

حبیب اکرم کے مطابق ’مسلم لیگ ن پر جو تنقید ہے وہ کرپشن پر ہے، جبکہ عمران خان پر جو کیسز ہیں ان میں کوئی اہم کیس کرپشن سے متعلق نہیں ہے۔’صرف ایک کیس ہے وہ بھی توشہ خانہ کا۔ عوام کے نزدیک یہ بہت بڑا فرق ہے۔‘

ریاست یرغمال!

Related Articles

Back to top button