حکومت نے ریاستی رٹ قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا

پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی تعیناتی کے بعد عمران خان کے قریبی ساتھی فواد چوہدری کی گرفتاری اور پرویز الٰہی کے خلاف مقدمے کے اندراج سے سیاسی ماحول گرم ہو گیا ہے اور واضح اشارے مل رہے ہیں کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے سخت ترین رویہ اپنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے کے غلط فیصلے کے نتائج اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور موصوف موجودہ صورت حال کی ذمہ داری اب کسی اور پر نہیں ڈال سکتے۔

اسلام آباد پولیس کے بیان میں بتایا گیا کہ ’فواد چوہدری نے آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی پیدا کرنے اور لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، لہذا فواد کیخلاف درج کیس پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے‘۔ اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ کیس سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا ہے، فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کو ان کے فرائض منصبی سے روکنے کے لیے ڈرایا دھمکایا تھا۔ یاد رہے کہ فواد کے خلاف سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کی شکایت پر اسلام آباد کے کوہسار تھانے میں ایف آئی آر درج کی گئی جس میں فواد کے ٹی وی انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ’انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک منشی کی ہوگئی ہے، نگران حکومت میں جو لوگ شامل کیے جا رہے ہیں، سزا ہونے تک ان کا پیچھا کریں گے اور حکومت میں شامل لوگوں کو گھر تک چھوڑ کر آئیں گے‘ ایف آئی آر کی دستیاب کاپی کے مطابق ’فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے ارکان اور ان کے خاندان والوں کو بھی ڈرایا دھمکایا۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ شب عمران خان کی گرفتاری کے مبینہ حکومتی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے پی ٹی آئی کارکنان زمان پارک رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے تھے۔ لیکن فواد چوہدری رات گئے ڈیفنس لاہور میں واقع اپنے گھر چلے گئے تھے جس کے چند گھنٹوں بعد ان کی گرفتاری کی خبر سامنے آگئی۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پرویز الٰہی حکومت کے خاتمے کے بعد اب وہ سب کچھ ہو گا جو سابق وزیراعلیٰ عمران خان کے ایماء پر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ نگران حکومت نے پنجاب میں ریاستی اداروں کی رٹ دوبارہ قائم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے اور اب کسی بھی قانون شکن کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی دباؤ قبول کیا جائے گا۔ تاہم سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فواد چوہدری اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات کی ذمہ داری بنیادی طور پر عمران خان پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے سوچے سمجھے بغیر صرف اپنی انا کی تسکین کے لئے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں اور 65 فیصد پاکستان کا قبضہ اپنے سیاسی مخالفین کو دے دیا۔

اس سے پہلے عمران خان نے ایک اور سیاسی غلطی کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن جب انہیں اس غلطی کا احساس ہوا تو تب تک بہت دیر ہو چکی تھی، لہذا ان کے ممبران قومی اسمبلی کی جانب سے استعفے واپس لینے کی کوشش ناکام ہوگئی اور اب قومی اسمبلی میں صرف عمران کے منحرف اراکین باقی بچے ہیں۔ ن لیگ اس فیصلے پر شادیانے بجارہی ہے جب کہ پی ٹی آئی اس فیصلے پر احتجاج کررہی ہے۔ تاہم عمران سے یہ سوال کرنا بنتا ہے کہ انکا استعفیٰ دینے کا فیصلہ درست تھا یا واپس لینے کا؟

تحریک انصاف کے مستعفی اراکین کے استعفے قبول کیے جانے کی بات فواد چوہدری کی گرفتاری اور پرویز الٰہی کے خلاف کیس کے اندراج پر سیاسی مبصرین کی طرف سے ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے۔ سینئر تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ استعفوں کی منظوری اور گرفتاریوں کا عمل شروع ہونے سے ملک میں سیاسی بے یقینی مزید بڑھ سکتی ہے۔ انکےمطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے پارلیمنٹ میں آنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرتی ہے لیکن اب حکومت کا ارادہ یہ لگ رہا ہے کہ وہ راجہ ریاض  کے ساتھ بات کر کے نگراں سیٹ اپ لے کر آنا چاہتی ہے، جس پر بہت سارے سوالات اٹھ جائیں گے۔ سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی نگراں حکومت کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی اگلے انتخابات کو بھی تسلیم نہیں کرے گی اور ملک مز ید سیاسی بے یقینی کا شکار ہو جائے گا۔ تاہم سینئر صحافی حماد غزنوی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ویسے بھی اگلے الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کرنے چونکہ انہیں دیوار پر لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی رٹ قائم کیے بغیر کوئی ملک کامیاب نہیں ہو سکتا، لہذا اگر اداروں کو دھمکیاں دینے والوں کا محاسبہ شروع کیا گیا ہے تو اسے سیاسی انتقام قرار نہیں دیا جا سکتا۔

Related Articles

Back to top button