مری میں مرنے والے کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں؟

سانحہ مری کے بعد وزیر اعظم عمران خان اور انکی حکومت سوشل میڈیا صارفین کی شدید تنقید کی زد میں ہے اور اسکی نااہلی اور نالائقی کو سانحے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ عمران خان اس لیے بھی سوشل میڈیا صارفین کے غیض و غضب کا نشانہ بن رہے ہیں کہ انہوں نے سانحے کی ذمہ داری مرنے والوں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے جو بقول انکے موسم کی صورتحال کا ادراک ہونے کے باوجود وہاں پہنچ گئے۔ سوشل میڈیا صارفین اپنی ٹوئٹس میں وزیراعظم کو بتا رہے ہیں کہ یہ لوگ شاید انکے چہیتے وزیر فواد چوہدری کی اس ٹویٹ کے بعد مری پہنچے تھے جس میں انہوں نے ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیوں کے شہر میں داخل ہو جانے کی نوید سنائی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ عوام کی خوشحالی کا ثبوت ہے۔ تاہم انہوں نے اتنی زحمت نہیں کی کہ پانچ ہزار گاڑیوں کی گنجائش والے شہر میں ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں داخل ہونے کا علم ہو جانے کے بعد گھمبیر ہوتی صورت حال سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ بناتے۔

یاد رہے کہ اہم ترین مواقع پر بھی بوندیں مارنے والے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں مری واقعے پر دکھ کا اظہار تو کیا تھا مگر اس کے لیے سیاحوں کو ذمہ دار قرار دے دیا تھا جو خراب موسم میں بھی وہاں چلے گے۔ انہوں نے انتظامیہ کے خاطر خواہ تیار نہ ہونے کا اعتراف کیا اور لکھا کہ ایسے موقع پر غیر معمولی برفباری اور موسمی حالات کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر ہی لوگوں کی بڑی تعداد مری پہنچ گئی جس کا نتیجہ سانحے کی صورت میں نکلا۔

وزیراعظم کی اس ٹوئٹ پر تنقید کرتے ہوئے سینئیر صحافی سلیم صافی نے لکھا کہ خان صاحب، مری کی ضلعی انتظامیہ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے ماتحت ہے۔ ڈان اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ اس سانحے کی وجہ وفاقی، پنجاب اور خیبر پختونخواہ حکومتوں کی مجرمانہ غفلت ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ وفاقی دارالحکومت سے محض ایک گھنٹے کے فاصلے پر لوگ سردی سے مر رہے ہیں۔ بقول ان کے کتنے اور لوگوں کو مرنا ہوگا تاکہ حکمران خواب غفلت سے جاگیں۔

سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی دو روز قبل کی ٹوئٹ پر بھی تنقید کی جا رہی ہے جس میں مری میں لاکھوں سیاحوں کی آمد کو ملک میں عام آدمی کی خوشحالی اور آمدن میں اضافے سے تعبیر کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے اپنی ٹوئٹ میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’’حکومتوں کا کام صرف سیاح گننا نہیں بلکہ ان کے لیے پیشگی انتظامات اور حفاظتی اقدامات کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ ہلاکتیں برفباری سے نہیں، حکومتی غفلت سے ہوئی ہیں۔ سینئیر صحافی مظہر عباس نے لکھا کہ مری واقعہ پر سیاست دانوں کی جانب سے سیاست شرمناک ہے۔ یا تو انہیں وہاں جا کر مدد کرنی چاہیے یا بیانات دینا بند کردینا چاہیے۔ صحافی علی وارثی نے لکھا کہ حکومت کے برے انتظامات کی وجہ سے ہونے والے سانحے پر سیاست سے گریز کیسے ممکن ہے؟

دوسری طرف کچھ لوگوں کا موقف تھا کہ اس قدر شدید موسم میں سیاحتی مقام کا سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ عمران کے قریبی شاہد آفریدی نے اپنے پیغام میں لکھا کہ جہاں انتظامیہ کی تیاری ناکافی تھی وہیں عوام کو رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الرٹ اور وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
ایک اور صارف ماریہ سومرو نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ لوگوں کو مکمل معلومات جیسے موسم کی پیش گوئی، ہوٹل کی بکنگ، سڑک کے حالات، کھانے پینے کے انتظامات، مناسب لباس اور طبی بندو بست کے بارے میں جانے بغیر ایسے سخت موسم میں سفر نہیں کرنا چاہیے۔

لیکن دوسری جانب سوشل میڈیا پر صارفین اس بات پر بھی تنقید کرتے نظر آئے کہ ایسے موقع پر عوام کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے۔ ’ایچ‘ کے نام سے ایک صارف نے لکھا کہ ایسے موقع پر لوگوں کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں جو اپنے خاندانوں کے ساتھ اچھا وقت گزارنے نکلے تھے اور برف میں پھنس گئے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ عوام کی غلطی نہیں ہے کہ ہمارے بڑے سیاحتی مقام کا انفراسٹرکچر برفباری کو سنبھالنے میں ناکام ہو گیا۔

قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وزیرِ اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران نے متاثرین کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا اپنی حکمرانی کا فلسفہ بنا لیا ہے۔ اُنھوں نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ حکومت اس دوران کہاں تھی؟ سیاحوں کی آمد کو سنبھالنے کے لیے کیا انتظامات کیے گئے تھے؟ ماضی میں پیشگی انتظامات اور 24 گھنٹے نگرانی معمول تھا۔

پاکستان ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کی دوڑ میں کتنا پیچھے ہے؟

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر مری میں سیاحوں کو سنگین صورتحال سے آگاہ کیا جاتا تو ایسا سانحہ رونما نہ ہوتا۔ اُنھوں نے انتظامیہ سے درخواست کی کہ وہ سیاحوں کی فوری مدد کریں۔
سوشل میڈیا پر کئی صارفین، اپوزیشن رہنما اور سماجی کارکنان یہ سوال کرتے نظر آئے کہ جب حکومت مری میں ’ایک لاکھ گاڑیوں‘ کے داخلے پر خوشی کا اظہار کر رہی تھی تو کیا کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ان ایک لاکھ گاڑیوں میں سوار لوگ ٹھہریں گے کہاں اور یہ گاڑیاں اتنی برف باری میں کیسے نکلیں گی؟

اس حوالے سے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری سے جب پریس کانفرنس میں سوال کیا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ انتظامیہ ’ایک ہفتے سے‘ کہہ رہی تھی کہ مزید لوگ یہاں نہ آئیں۔ ساتھ ہی ساتھ اُنھوں نے سیاحت میں اس اضافے کو معیشت کی بہتری سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ سیاحوں کو اتنی بڑی تعداد میں سنبھالنا بھی ممکن نہیں۔ تاہم مری سانحے کے بعد فواد نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ برف دیکھنے کی خاطر اتنی دور جانے کی بجائے سنو سپرے کی بوتلیں خرید لیں اور ایک دوسرے پر سپرے کر کے برفباری کا مزہ لیں۔

فواد چوہدری کی 6 جنوری کو کی گئی ایسی ہی ایک ٹویٹ کے جواب میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے سابق سیکریٹری اطلاعات احمد جواد نے کہا کہ مری میں جو قیمتی جانیں چلی گئیں، کیا اُنھیں بھی معاشی اشاریوں میں شامل کر لیں؟ پارٹی کا بیانیہ اپنے ضمیر سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتا۔

سوشل میڈیا صارفین امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر تنقید کر رہے ہیں اور اس بارے میں بھی سوال کر رہے ہیں کہ مری کی برف میں پھنسے سیاحوں کی رہائش کے لیے حکومت سرکاری عمارات اور دفاتر کو کیوں نہیں کھول رہی۔ صحافی احتشام الحق نے کہا کہ ہمارے تقریباً 30 فیصد سیاست دانوں کے چھٹیاں منانے کے لیے مری میں گھر اور بنگلے موجود ہیں۔ الزامات عائد کرنے کے بجائے اُنھیں اپنے دروازے عوام کے لیے کھولنے چاہیے اور اُنھیں کھانا اور پناہ فراہم کرنی چاہیے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ حکومت اور اپوزیشن کے لیے واضح پیغام ہے۔

ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم کے بونگے مشیر شہباز گل نے ٹویٹ کیا کہ ’کچھ لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ مری میں گورنر ہاؤس کو کیوں نہیں کھولا گیا۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’میں ابھی تھوڑی دیر پہلے اسی گورنر ہاؤس میں سونے کے لیے داخلے کی ناکام کوشش کر کے واپس آیا ہوں۔ وہاں دس فٹ برف ہے اور اندر جانے کا کوئی راستہ نہیں۔ پیدل چلنے کی کوشش کی تو پوری پوری ٹانگ برف میں دھنس گئی۔‘

لیکن شہباز گل کے اس ٹویٹ کے جواب میں ایک صارف نے لکھا: ’یہ بھی تو نااہلی کی انتہا ہے کہ گورنر ہاؤس میں دس فٹ برف جمع ہے۔ حالانکہ کسی بھی جگہ پر چار فٹ سے زیادہ برفباری نہیں ہوئی۔‘ شہباز گل کی ٹویٹ کے جواب میں مری کے ایک رہائشی فرخ جاوید عباسی نے انھیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے لکھا: ’میں مری کے گورنر ہاؤس کی یو سی سے تعلق رکھتا ہوں اور حقیقت میں وہاں صرف ڈیڑھ فٹ برف ہے۔‘

Related Articles

Back to top button