جاوید اقبال تاحال لاپتہ افراد کمیشن کی سربراہی پر قائم

عمران خان کے دور اقتدار میں حکومتی ٹٹو کا کردار ادا کرنے والے نیب چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال وفاقی حکومت کی خواہشات کے برعکس تاحال لاپتہ افراد کمیشن کی سربراہی سے چمٹے ہوئے ہیں اور دھیلے کا کام نہ کرنے کے باوجود عہدہ چھوڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے حالانکہ عدالتی احکامات کے مطابق لاپتہ افراد کمیشن ایک بوجھ بن چکا ہےاور اپنے وجود کا جواز پیش کرنے میں ناکام ہے۔

 

یاد رہے کہ جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن 2011 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے جسٹس جاوید اقبال اس کی سربراہی کر رہے ہیں۔ یہ لاپتا افراد کا سراغ لگانے اور اس کے ذمہ دار افراد یا تنظیموں پر ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، کمیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2011 سے اب تک لاپتا افراد میں سے صرف ایک تہائی گھر واپس آئے ہیں۔ یاد رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے بطورچیئرمین لاپتہ افراد کمیشن ہی طیبہ بخاری نامی خاتون سے پہلی ملاقات کی تھی جس کے بعد وہ ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گئے اور انجام یہ ہوا کہ خاتون کو اپنے خاوند سمیت نیب کی حراست بھگتنا پڑی تھی اور جسٹس جاوید اقبال کی ایک نازیبا ویڈیو بھی مارکیٹ ہو گئی تھی۔

 

سینئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال مستقل گمشدہ افراد کی تلاش کیلئے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ ہیں حالانکہ موجودہ حکومت انہیں اس عہدے سے ہٹانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔جولائی 2022 میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزیراعظم کو سفارش کی تھی کہ سابق چیئرمین نیب کو گمشدہ افراد کی تلاش پر مامور کمیشن کے عہدے سے ہٹایا جائے لیکن جاوید اقبال بدستور عہدے پر قائم ہیں۔

 

پی ڈی ایم حکومت بھی اقتدار میں آنے کے فوراً بعد چاہتی تھی کہ انہیں عہدے سے ہٹایا جائے لیکن وہ ایسا نہیں کر پائی۔ رابطہ کرنے پر وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت جاوید اقبال کو ہٹانے کیلئے تیار تھی لیکن جاوید اقبال نے درخواست کی کہ انہیں دسمبر 2022ء تک عہدے پر کام کرنے دیا جائے۔انہوں نے کہا کہ جاوید اقبال نے وعدہ کیا تھا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں گے لیکن وہ اب تک عہدے پر ہیں۔ وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ اب جاوید اقبال اداروں میں اپنے روابط اور تعلقات استعمال کرتے ہوئے کمیشن کا عہدہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔وہ 2011ء سے اس کمیشن کے چیئرمین ہیں۔ جب وہ چیئرمین نیب تھے اس وقت بھی انہوں نے گمشدہ افراد کی تلاش کیلئے قائم کمیشن کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔2022 میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزیراعظم شہباز شریف کو سفارش پیش کی تھی کہ جاوید اقبال کو عہدے سے ہٹایا جائے۔

 

چیئرمین نیب کیخلاف جنسی ہراسگی کے الزامات کے کیس میں طیبہ گل کے کمیٹی میں پیش ہونے کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جاوید اقبال کو ہٹانے کیلئے یہ سفارش وزیراعظم کو پیش کی تھی۔ 2019ء میں  جاوید اقبال کی طیبہ گل کے ساتھ ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی۔اس ویڈیو اسکینڈل کے بعد طیبہ گل نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں اور ان کے شوہر کو نیب نے مختلف کیسز میں ملوث کر دیا ہے۔ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان سینیٹ نے بھی ایوانِ بالا میں گمشدہ افراد کمیشن کے عہدے سے جاوید اقبال کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے سینیٹ میں ایک قرارداد پیش کی اور کہا کہ گمشدہ افراد کمیشن کا عہدہ حساس نوعیت کا ہے اور جس شخص پر جنسی ہراسگی کا الزام ہو اسے اس ادارے کا سربراہ نہیں ہونا چاہئے۔

 

گزشتہ سال حکومت نے جاوید اقبال کیخلاف ان الزامات کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دیا لیکن جاوید اقبال نے اپنے خلاف تحقیقات کو چیلنج کرنے کیلئے عدالت میں مقدمہ کر دیا۔عہدے میں توسیع کے حوالے سے جاری کردہ آرڈیننس کی مدت ختم ہونے کے بعد جاوید اقبال 3؍ جون 2022ء کو چیئرمین نیب کے عہدے سے ہٹا دیے گئے۔موجودہ حکومت نے بھی آرڈیننس کی توثیق سے انکار کر دیا۔ ان کا چار سالہ عہدہ پہلے اکتوبر 2021ء میں ختم ہو چکا تھا۔ طیبہ گل نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اور ان کے شوہر کو ذاتی انتقام کا ہدف بنایا گیا ہے۔ بعد میں عدالت نے خاتون کو بری کر دیا۔

 

گمشدہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر کام کرنے والی سماجی کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ نے ٹی وی ٹاک شو میں الزام عائد کیا تھا کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے گمشدہ شخص کی اہلیہ کے ساتھ اس وقت جنسی بدسلوکی کی جب وہ گمشدہ افراد کے کیس میں کمیشن میں پیش ہوئیں۔جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ جب نوجوان خاتون نے کمیشن میں پیش ہو کر اپنے گمشدہ شوہر کی معلومات دریافت کیں تو مبینہ طور پر جاوید اقبال نے ان سے کہا کہ ’’تم اپنا شوہر کیوں تلاش کر رہی ہو، تم بہت خوبصورت ہو تم تو جو چاہے مرد حاصل کر سکتی ہو۔’’ تاہم، جاوید اقبال ان الزامات سے انکار کرتے ہیں۔

 

تمام تر الزامات اور ناقص کارکردگی کے باوجود ساکھ کے بحران کا شکار جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کمیشن کی سربراہی چھوڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے تاہم اب دیکھنا ہے کہ عمرانی دور میں نیب کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال کا الزام عائد کرنے والی ن لیگ جسٹس جاوید اقبال کو عہدے سے ہٹانے کیلئے کیا لائحہ عمل تیار کرتی ہے۔

Related Articles

Back to top button