کیا عمران فاروق کے قتل کا حکم دینے والا الطاف بچ جائے گا؟


وزارت داخلہ نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے مقدمہ قتل میں الطاف حسین کو مرکزی ملزم قرار دیے جانے کے باوجود ان کو پاکستان واپس لانا اور مقدمہ چلا کر سزا دینا انتہائی مشکل نظر آتا ہے کیونکہ وہ برطانوی شہری ہیں۔ یاد رہے کہ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں تین ملزمان کو عمر قید کی سزا اور ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو مفرور قرار دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ قتل کا حکم الطاف نے دیا تھا۔ دوسری طرف وزارت داخلہ نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ حالانکہ عمران فاروق قتل کیس میں سزا پانے والے 3 میں سے دو اشخاص کو برطانیہ نے پاکستان کے حوالے کیا ہے لیکن اس مقدمہ قتل میں الطاف حسین کی حوالگی اس لیے مشکل ہے کہ وہ برطانوی شہریت رکھتے ہیں اور ان کے خلاف پہلے سے برطانیہ میں کچھ مقدمات چل رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کو الطاف حسین کے ساتھ سیاسی اختلافات پیدا ہونے کے بعد اس روز قتل کیا گیا جب بانی متحدہ کی سالگرہ تھی۔ عمران فاروق کی کہانی ان کے قتل کے تین ملزمان کی عمر قید یا الطاف حسین کو مفرورقراردیئے جانے پرختم نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ عدالتی فیصلے کے مطابق قتل کا حکم الطاف حسین نے جاری کیا تھا لہذا جب تک وہ خود انجام کو نہ پہنچ جائیں عمران فاروق کی کہانی ختم نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر عمران فاروق 80کی دہائی کے کئی دوسرے پارٹی لیڈرزکی طرح طِب کے شعبے سے وابستہ تھے جنھوں نے اپنے طریقےسےپارٹی میں ’سرجیکل ‘ کام کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اور الطاف حسین کے غیظ و غضب کا شکاربن گئے۔ وہ اس وقت لندن میں سامنے آئے جب سابق جنرل(ر) مشرف نے پاکستان میں مارشل لاء لگایا اور اقتدار میں ان کے 9 سال یعنی 12 اکتوبر 1999 سے 2008 تک غالباً ایم کیوایم کیلئے بہترین وقت تھا۔ عمران فاروق پارٹی میں دوبارہ شامل ہوئے اور الطاف حسین نےاعلان کیا کہ ’کنوینئرواپس آگیا ہے‘۔ لیکن بعد ازاں عمران فاروق اور الطاف حسین کےدرمیان ’چین آف کمانڈ‘ پر اختلافات پیدا ہوگئے۔ جب ان دونوں کے آپسی معاملات طے نہ ہوئے تو عمران فاروق نے دوبارہ سے ایم ایم چھوڑ دی اور ایک فارمیسی پر نوکری کر لی جسے الطاف حسین نے بغاوت سمجھا اور انہیں ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا خاص طور پر ان اطلاعات کے بعد کہ وہ ایم کا اپنا دھڑا تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران فاروق کے قتل کا فیصلہ نہ صرف الطاف حسین کو لے ڈوبا بلکہ اس نے پارٹی کو بھی تباہ کر دیا کیوںکہ ڈاکٹر عمران فاروق بہت ہی تگڑے کنوینر تھے اور تنظیمی معاملات پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ الطاف کی عزت کی لیکن جب بھی تنظیمی معاملات کی بات آئی تو انہوں نے مضبوط موقف اپنایا چایے وہ بانی کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ ایم کیو ایم کے ایک سینئر رہنما نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ عمران فاروق کے الطاف حسین سے اختلافات تین معاملات پر تھے۔ ڈاکٹر عمران فاروق بار بار چین آف کمانڈ میں تنظیمی تبدیلیوں پر خوش نہیں تھے۔ وہ پارٹی میں کرپشن اور مختلف سطحوں پر فنڈز کے غلط استعمال کی بڑھتی ہوئی شکایات پر بھی نالاں تھے اوران دونوں نے ایک دوسرے پر اعتماد کھونا شروع کردیا تھا۔ ان معاملات ہر اختلافات کے باعث ان کی رکنیت کئی بار معطل ہوئی جس کے بعد سے انہوں نے ہمیشہ کے لئے پارٹی سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا۔
ان کے قتل سے ایک ہفتہ قبل بانی انھیں واپس بطور کنوینیر لانا چاہتے تھے اور پارٹی کے چند سینئر لیڈرز کوبھی بھیجا لیکن عمران فاروق نے نرمی سے ان سے کہاکہ ان کیلئے کنوینیر شپ قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر عمران فاروق کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا خصوصا جب ایم کیوایم کے بانی کو یہ اطلاع ملی کہ ان کے سابقہ کنوینر پارٹی کا علیحدہ دھڑا تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں حالانکہ عمران فاروق کی اہلیہ ایسے خبروں کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا فیصلہ آنے اور الطاف حسین کو اس کا ماسٹر مائنڈ قرار دیے جانے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ بانی ایم کیو ایم کو ملک واپس لاکر سزا کیسے دی جائے۔ وفاقی وزارت قانون کے ذرائع کے مطابق الطاف کو ملک واپس لاناآسان نہیں ہوگا کیونکہ ایک تو وہ برطانوی شہری ہیں اور دوسرا انھیں پہلے ہی ایک ’نفرت انگیز تقریر‘ کرنے کے کیس کا سامنا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button