کیا عدالتی حکم پر 90 روز میں الیکشن کا انعقاد ممکن ہے؟

لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئینی طور پر الیکشن کمیشن اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90روز کے اندر الیکشن کروانے کا پابند ہے۔ الیکشن کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن فوری صوبے میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرے۔پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوئے 20 دن سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہو پایا ہے۔دوسری طرف وفاقی حکومت کے اداروں اور اہم شخصیات کے حالیہ بیان اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ وفاقی حکومت بظاہر صوبائی اسمبلیوں میں اس وقت انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتی۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کیا اعلان کرتا ہے اور وفاقی ادارے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں؟

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے لیے دائر درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے سماعت کی تھی اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔10 فروری کو رات گئےجسٹس جواد حسن نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے اور اسی لیے الیکشن کا شیڈول فوری طور پر جاری کیا جائے۔

دوسری طرف وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق سکیورٹی کی ناقص صورتحال یا اقتصادی مشکلات کی صورت میں پاکستان کا آئین صوبوں میں اس وقت قائم نگراں حکومتوں کی مدت میں اضافے کی گنجائش دیتا ہے۔‘

پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز بھی اس جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ ‘پاکستان میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت پر منعقد ہونا چاہیں کیونکہ پاکستان کی معاشتی صورتحال مختلف اوقات میں مختلف انتخابات کروانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘

بعض حکومتی مشیران اور وزرا نے حال ہی میں اس حوالے سے بھی سوال اٹھایا ہے کہ آئین کہیں بھی 90 روز میں انتخابات کروانے کا پابند نہیں ہے۔ تاہم آئینی اور قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ آئین واضح طور پر 90 روز کے اندر انتخابات کا انعقاد کرنے کا کہتا ہے۔

وکیل اور آئینی ماہر حافظ احسن کھوکھر نے بتایا کہ آئین کا آرٹیکل 224 یہ کہتا ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرے تو 60 دن اور اور اگر مدت پوری ہونے سے پہلے اسمبلی تحلیل کر دی جائے تو 90 روز کے اندر انتخابات ہونا ضروری ہیں۔’یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔ آئین میں 90 دن کا وقت اس لیے دیا گیا ہے تاکہ الیکشن کے عمل کو شروع کرنے کے بعد کاغذاتِ نامزدگی جمع ہونے سے لیکر حتمی فہرستوں تک لگ بھگ دو ماہ کا وقت لگ جاتا ہے۔‘لیکن کیا الیکشن کمیشن خود سے انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے؟

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی یعنی پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن خود سے ایسا نہیں کر سکتا۔’ضمنی انتخابات کے معاملے میں تو الیکشن کمیشن پر کوئی قدغن نہیں ہے وہ خود سے تاریخ دے سکتا ہے۔ اسی لیے ہم نے دیکھا کہ الیکشن کمیشن نے فوراً سے تاریخ دے بھی دی۔ تاہم عام انتخابات کی صورت میں اس کے ہاتھ بندھے ہیں وہ خود سے تاریخ نہیں دے سکتا۔’

وکیل اور قانونی ماہر حافظ احسن کھوکھر سمجھتے ہیں کہ الیکشن کی حتمی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے۔ ان کے خیال میں آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت گورنر کو انتخابات کی ایک تاریخ تجویز کرنا ہوتی ہے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا اعلان کرتا ہے۔

ونوں صوبوں کے گورنرز کو الیکشن کمیشن خطوط کے ذریعے اس بابت آگاہ کر چکا ہے تاہم جواب میں گورنرز نے الیکشن کمیشن کو تاحال کوئی حتمی تاریخ نہیں دی۔

بعض مبصرین کے خیال میں اس تناظر میں گورنرز کی طرف سے الیکشن کی تاریخ نہ دینا وفاقی حکومت کی منشا کے مطابق انتخابات میں تاخیر کرنے کا حربہ معلوم ہوتی ہے۔

تاہم پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ گورنرز کا یہ موقف درست ہے کہ آئینی طور پر وہ الیکشن کی تاریخ دینے کے پابند نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں گورنر صرف اس وقت الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے جب اسمبلی اس نے خود تحلیل کی ہو۔’آئین کے آرٹیکل 105 کی شق تین میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ گورنر صرف اس صورت میں الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے اگر اس نے خود اسمبلی تحلیل کی ہو۔ لیکن یہاں دونوں صوبوں میں گورنرز نے اسمبلیاں تحلیل نہیں کیں۔‘

تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دے گا کون؟پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے خیال میں الیکشنز ایکٹ کے آرٹیکل 57 میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ’صدرِ پاکستان الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورت میں الیکشن کی تاریخ کا تعین کریں گے۔‘وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان قواعد میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ صدر صرف قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دے سکتے اور صوبائی اسمبلی کی نہیں۔تاہم قانونی ماہر حافظ احسن کھوکھر سمجھتے ہیں کہ صدر صرف قومی اسمبلی کی حد تک الیکشن کی تاریخ تجویز کر سکتے ہیں، صوبائی اسمبلیوں کے لیے اس تجویز کا ان کے پاس اختیار نہیں ہے۔

کیا ’انتخابات میں تاخیر کی آئین میں ’گنجائش‘ موجود ہے؟پاکستان کے وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے حال ہی میں قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران اس جانب اشارہ کیا کہ ’صوبوں میں نگران حکومتوں کی معیاد میں اضافے کی آئین گنجائش دیتا ہے اگر ملک کی معاشی یا سکیورٹی صورتحال خراب ہو۔‘انھوں نے ماضی سے اس حوالے سے دو مثالیں بھی دیں جن میں ایک سنہ 2007 میں سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو کی موت کے بعد سنہ 2008 کے عام انتخابات کی تاریخ میں تاخیر شامل تھی۔

تاہم آئینی ماہر حافظ احسن کھوکھر کے خیال میں آئین میں انتخابات میں تاخیر کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں جب بھی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھائی گئی تو وہ صرف تاریخ بڑھائی گئی، اس سے پہلے الیکشن کا شیڈول جاری ہو چکا تھا اور الیکشن کے عمل کا آغاز ہو چکا تھا۔’اس وقت جو غیر معمولی فیصلہ ہوا وہ تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت اور رضامندی کے ساتھ ہوا اور صرف الیکشن کے دن کو آگے کیا گیا۔ یہاں تو صورتحال مختلف ہے۔ یہاں تو حکومت الیکشن کی تاریخ ہی نہیں دے رہی اور الیکشن کا عمل ہی شروع نہیں ہوا ہے۔‘

دوسری طرف پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے پاس مکمل اختیار ہے کہ اگر اسے محسوس ہو کہ ملک میں گیر معمولی صورتحال ہیں تو وہ الیکشن کے انعقاد میں تاخیر کر سکتا ہے۔’اس کے لیے اس کو جواز پیش کرنا ہو گا اور یہ جواز تحریر کیا جائے گا۔ ماضی میں ایسا ہو بھی چکا ہے جب سنہ 2008 کے انتخابات کی تاریخ کو سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو کی وفات کی وجہ سے آگے کیا گیا۔’

احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے پر آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی کیونکہ الیکشنز ایکٹ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتا ہے۔بلدیاتی انتخابات میں ماضی میں ہونے والے متعدد التوا کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جب حکومت نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا کہ سیلاب یا کسی دوسری وجوہات کی بنا پر انتخابات ممکن نہیں تو الیکشن کمیشن نے انتخابات کو آگے کیا ہے۔

Related Articles

Back to top button