سوات سے طالبان تو نکل گئے لیکن طالبانی ذہنیت نہ نکل پائی


خیبر پختوننخواہ کی پولیس کی جانب سے سوات کے مشہور سیاحتی مقام مالم جبہ کے ایک ہوٹل میں میوزک پر ڈانس کرنے والے طلبہ و طالبات پر فحش حرکات کرنے کا مقدمہ درج کرنے کا عمل شدید تنقید کی زد میں ہے اور اسے طالبان ذہنیت کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے۔ یاد رہے کے سوات وہ علاقہ ہے جہاں پر ماضی میں ملا فضل اللہ کی زیر قیادت طالبان نے قبضہ کرلیا تھا اور یہ قبضہ چھڑوانے کے لئے 2009 میں پاکستان آرمی کو ایک بڑا فوجی آپریشن کرنا پڑا جس میں دونوں جانب سے وسیع پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ سوات سے طالبان تو ختم ہوگئے لیکن محکمہ پولیس میں طالبان ذہنیت کے لوگ اب بھی موجود ہیں جنہوں نے تفریحی دورے پر آئے ہوئے طلباء و طالبات رات کے ڈانس کرنے پر ان کے خلاف فحاشی کے مقدمہ درج کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے تفریحی مقام مالم جبہ کی پولیس نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں سے آئے ہوئے طالب علموں کے ایک تفریحی دورے کے دوران نوجوانوں کے برفباری شروع ہونے پر ہلہ گلہ کرنے کو فحاشی قرار دیتے ہوئے کیس درج کیا اور اب ان کی گرفتاری کی کوشش میں مصروف ہے۔ ہوٹل مالک اور منیجر کو عدالت کی طرف سے جرمانے کی ادائیگی کے بعد رہائی مل گئی ہے تاہم پولیس کو 30 سے 40 نامعلوم سیاح طلبہ کی اب بھی تلاش ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعے کے ایک ماہ بعد اس ڈانس کی ویڈیو وائرل ہونے پر ایف آئی آر کیوں درج کی گئی، اور کیا اس میں نظر آنے والے مناظر واقعی فحاشی ہیں؟ اس ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ تفریحی دورے پر آئے ہوئے طلبہ اور طالبات برف باری کے دوران ہلکے میوزک پر ایک دوسرے سے فاصلہ رکھے ہوئے ڈانس کرنے میں مصروف ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے طالبانی سوچ پر مبنی اقدام سے نہ صرف شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہو گی بلکہ ملک میں سیاحت فروغ پانے کی بجائے مزید سکڑ جائے گی۔
تھانہ مالم جبہ میں پولیس کی جانب سے اپنی مدعیت میں چھ جنوری کو درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال چار دسمبر کو ہوٹل منیجر اور مالک نے آئے ہوئے مہمانوں کو لاؤڈ اسپیکر کی سہولت مہیا کی تھی جو کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی ہے۔ایس ایچ او مالم جبہ جاوید اقبال کے مطابق یہ تقریباً ایک ماہ پہلے کا واقعہ ہے، جس میں باہر سے آئے کچھ مہمانوں نے کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی وغیرہ کی تھی۔ جس پر مقدمہ درج کیا گیا جبکہ ہوٹل منیجر اور مالک کو گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔عدالت نے ان پر 40 ہزار روپیہ جرمانہ عائد کرکے ان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ مقدمہ تاخیر سے درج ہونے کی وجہ ویڈیو کا تاخیر سے وائرل ہونا ہے۔
خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر تین منٹ کی ویڈیو کے وہ حصے شیئر کیے گئے جن میں سیاحت کی غرض سے آئے ہوئے طلبہ خوشی سے ڈانس کر رہے ہیں۔ یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو سوات میں مقامی تاجروں کی تنظیم کے صدر عبدالرحیم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سیاح وادی سوات کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں لیکن نئے سال کے آغاز پر یوں سیاحت کی آڑ میں فحاشی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ قمر حسین جو کہ سابق کونسلر ہیں، ان کا کہنا تھا کہ سوات کے لوگ یہ سب برداشت نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ تقریباً تین منٹ کی وائرل ویڈیو کو باقاعدہ ایڈیٹ کیا گیا ہے، جس میں پہلے مالم جبہ کے مختلف مناظر دکھائے گئے ہیں۔ ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ ناگہانی آفات کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا کہ کیا ہوجائے، ہر کوئی اندر سے کمزور ہے۔ مگر اس دوران کوئی نئی منزلیں تلاش کرنا چاہے تو سوات پاکستان کا دل ہے۔ جس کے بعد سوات کے مختلف مناظر دکھائے گئے ہیں۔ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چند نوجوان جنھوں نے میوزک سسٹم نصب کررکھا ہے مالم جبہ کے ایک ہوٹل میں ڈانس تو کررہے ہیں لیکن ان میں سے کسی لڑکی یا لڑکے نے کسی قسم کی کوئی غیر مہذب حرکت نہیں کی جس پر اعتراض کیا جا سکے۔
لیکن یہ کوئی انہونی نہیں کہ خوشی مناتے طلبہ پر فحاشی پھیلانے کا الزام لگا کر مقدمہ درج کیا گیا ہو۔ اس سے قبل سوات میں پولیس نے 2016 میں مقامی رقاصاؤں اور گلوکاراؤں کی جانب سے ان کی رہائش گاہوں پر رقص اور موسیقی کی محفلیں منعقد کرنے پرہی مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ جس کے بعد فنکاروں نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ پولیس کی جانب سے اس پابندی نے طالبان دور کی یاد تازہ کردی۔ان کے مطابق اب تو سوات میں امن قائم ہے اور جگہ جگہ چیک پوسٹیں اور پولیس اہلکار تعینات ہیں ایسے میں اس قسم کی پابندی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
مالم جبہ میں رقص کی وڈیو سے پیدا ہونے والے تنازعے کو بہت سےلوگ طالبان ذہنیت کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔مالم جبہ میں گذشتہ سال کے آخری ماہ میں ہونے والے اس پروگرام کی میزبان ہارویسٹ نام کی ایک تنظیم تھی، جس کا دفتر لاہور میں قائم ہے۔ہارویسٹ کے مارکٹنگ منیجر باہو سرور کے مطابق ہم لوگ بنیادی طور پر میوزک اور سیاحت کے فروغ کے لیے سر گرم عمل ہیں اور ہر سال کے مختلف مواقع پر میوزک اور سیاحت سے جڑے پروگراموں کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان ایونٹس میں مقامی موسیقار کو دعوت دی جاتی ہے اور اس کے شرکا میں پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں کے نوجوانوں کے علاوہ مختلف شعبہ جات کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اور اس سال ہم نے مالم جبہ کا انتخاب کیا تھا۔
شرکا نے تین دن کے دوران مختلف مقامات کی سیر کی اس کے بعد ایک تقریب منعقد کی گئی تھی۔باہو سرور کا کہنا تھا کہ اس تقریب کے دوران میوزک کے فروغ کے لیے فنکشن بھی ہوا تھا۔حالیہ ویڈیو کو کئی غیر ملکیوں نے سوشل میڈیا پر دیکھا، پسند کیا اور شیئر کرنے کے علاوہ اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ حالات بہتر ہونے پر وہ سب سے پہلے سوات کا رخ کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم مشکل حالات کے اندر مقامی سیاحتی صنعت کے لیے ذریعہِ آمدن بنے ہیں۔
تاہم طلبا کے خلاف درج مقدمے کے قانونی پہلووں پر بات کرتے ہوئےطارق افغان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میں نے مالم جبہ میں سیاحوں کی وائرل وڈیو خود دیکھی ہے۔ مجھے تو اس میں کوئی فحاشی اور غلط کام نظر نہیں آیا ہے۔طارق افغان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ وائرل وڈیو کے اندر ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ہے کہ جو غلط اور قابل گرفت ہو۔ اس وڈیو پر فحاشی کا دفعہ لگانا میری رائے کے مطابق پولیس کا اختیارات سے تجاوز کرنا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ قانون دان امان ایوب ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میری رائے کے مطابق مذکورہ ویڈیو میں قانون کے مطابق بھی فحاشی کی دفعہ نہیں لگ سکتی ہے۔ یہ تو کسی فنکشن کی وڈیو ہے۔ اب اگر نوجوانوں، سیاحوں کے فنکشنز پر بھی فحاشی کی دفعات لگا دیں تو پھر یہ معاشرہ چل نہیں سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے قانون اور بالخصوص اس دفعہ میں بہت زیادہ مسائل ہیں۔ جس میں سب سے پہلے یہ کہ فحاشی ہے کیا ہے۔ قانون تو بنا دیا ہے مگر اس کی کوئی واضح تشریح نہیں ہے۔ جس سبب سے اس دفعہ کو کہیں بھی کسی پر بھی نافذ کردیا جاتا ہے جو کہ انتہائی غلط روایت ہے۔ لگتا ہے کہ اس وائرل وڈیو کے واقعہ میں بھی اسی طرح کیا گیا ہے۔ پولیس نے مقدمہ بنانا تھا۔ سیاحوں نے فنکشن کیا تھا پولیس نے ان پر فحاشی کی دفعات لگا دیں ہے۔ایف آئی آر میں درج ایک دفعہ 294 عوامی مقامات پر ناچ گانے، ڈانس اور دیگر ذریعے سے دوسروں کو پریشان کرنے پر استعمال ہوتی ہے جبکہ دوسری دفعہ کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر عائد کی جاتی ہیں۔
پروگرام کا حصہ بننے والےایک طالب علم کا کہنا تھا کہ یہ تیسرا سال ہے کہ میں اس سرگرمی کا حصہ ہوں۔ اس میں جہاں پر ہمارے ساتھ طالب علم ہوتے ہیں وہاں پر دیگر شعبہ زندگی کے لوگ بھی شریک ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد اپنے ملک میں سیاحت کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ مالم جبہ کے اس آخری پروگرام کے دوران بھی نہ تو کچھ نیا کیا گیا اور نہ ہی ایسا کچھ ہوا جو کہ قابل گرفت ہو۔ ہم لوگوں نے وہاں پر تین دن گزارے۔ اس دوران ہم نے مقامی رسم و رواج کا مکمل خیال رکھا تھا۔ ہمارا پروگرام ہوٹل کی چاردیواری کے اندر تھا۔ جس میں میوزک کی آواز بھی باہر نہیں جارہی تھی۔پروگرام میں شریک ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا ہے کہ مالم جبہ کی پولیس نے ہمارے تفریحی دورے کے دوران منعقدہ ایک پروگرام پر مقدمہ درج کیا ہے۔ اس وقت میں خود بھی ڈر رہی ہوں کہ پولیس کہیں مجھے بھی گرفتار نہ کر لے۔ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا اور نہ ہی ہم لوگوں نے کوئی ایسی حرکت کی ہے جو کہ قابل گرفت ہو۔ اگر پولیس نے مقدمات ہی درج کرکے لوگوں کو گرفتار ہی کرنا ہے تو پھر ان مقامات پر جانے پر پابندی عائد کردی جائے۔
کوارڈنیٹر پختونخوا سول سائٹی تیمور کمال کا کہنا تھا کہ سیاحت کے فروغ کے لیے منعقدہ پروگرام پر مقدمے کا درج ہونا انتہائی قابل افسوس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ نوجوان اور طالب علم تفریح کے لیے ایسا کوئی پروگرام منعقد نہ کریں۔یہ ان طالب علموں اور نوجوانوں کا حق ہے اور ان پروگراموں کے انعقاد پر مقدمات درج کرکے معاشرے کو تاریکی کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت کی اجازت کوئی قانون نہیں دیتا ہے۔ ویسے بھی جناح کے پاکستان کو آگے کی طرف لے جانا ہے کہ پیچھے کی طرف۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button