نواب آف کالا باغ اور ایوب خان کی راہیں کیسے جُدا ہوئیں؟

 

دنیائے سیاست میں نواب آف کالا باغ اور صدر ایوب کی دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، دونوں ایک دوسرے کے کافی قریب سمجھے جاتے تھے لیکن یہ دوستی حبیب اللہ پراچہ سے صدر ایوب کے تعلقات اور نواب آف کالا باغ کی دشمنی سے زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔
نواب آف کالا باغ 1960 سے 1966 تک گورنر مغربی پاکستان رہے وہ صدرایوب کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔صدر ان کی انتظامی صلاحیتوں کے معترف تھے اور ان پر از حد اعتماد کرتے تھے۔
جب صدر ایوب نے دو جنوری، 1965 کو عام انتخابات کا اعلان کیا تو مولانا بھاشانی نیشنل عوامی پارٹی کے صدر تھے جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار نامزد کیا۔یہ رپورٹیں گردش میں تھیں کہ مولانا نے فاطمہ جناح کی بجائے صدر ایوب کی پشت پناہی کی تھی۔

میر غوث بخش بزنجو لکھتے ہیں کہ مولانا کو صدر ایوب کی طرف راغب کرنے میں بنیادی کردار کراچی کے ممتاز صنعت کار حبیب اللہ پراچہ کا تھا جنہوں نے ان کی ملاقات صدر ایوب سے کروا دی تھی۔
صدر ایوب نے محمود ہارون کو وزیر ہی اسی لیے بنایا تھا کہ وہ اس نشست پر کنونشن مسلم لیگ کی جانب سے اپنے دوست خان بہادر پراچہ کو منتخب کروانا چاہتے تھے۔مگر انہیں یہ گمان نہیں تھا کہ وہ نواب آف کالا باغ کے حریف تھے اور نواب ہر قیمت پر ان کی شکست چاہتے تھے۔
چنانچہ محمود ہارون اور نواب آف کالا باغ ، حبیب اللہ پراچہ کو شکست دینے کے لیے اکٹھے ہو گئے۔جب الیکشن کے نتائج کا علان ہوا تو صدر ایوب کے امیدوار ایک ایسے امیدوار سے ہار چکے تھے جس سے وہ اپنے بد ترین دشمن کے طور پر نفرت کرتے تھے۔محمود ہارون کو فوراً مغربی پاکستان کی کابینہ سے نکال دیا گیا ان اقدامات سے غیر مطمئن ایوب مزید آگے بڑھے اور انہوں نے نے 18ستمبر، 1966 کو نواب آف کالا باغ کو گھر بھیج دیا۔
خان بہادر حبیب اللہ پراچہ نے دریائے سندھ کے کنارے ایک چھوٹے مگر تاریخی اہمیت کے حامل گاؤں مکھڈ ضلع اٹک میں 1897 میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان تجارت پیشہ تھا۔حبیب اللہ پراچہ کی عمر جب 14 سال ہوئی تو وہ گھوڑے پر سوار ہو کر شاہراہ ِریشم سے ہوتے ہوئے پہلے کابل، مزار شریف اور پھر بخارا چلے گئے۔
بخارا کے حالات جب خراب ہوئے تو حبیب اللہ پراچہ نے اپنا کاروبار ایران اور افغانستان میں جمانے کی کوشش کی مگر وہاں پر سیاسی افرا تفری کہ وجہ سے وہ جم نہ سکے اور شنگھائی چلے گئے جہاں ان کی چائے کی تجارت خوب پھلی پھولی اور انہوں نے یہاں پر کافی جائیداد خریدی۔
پھر چین کے بڑے علاقے پر جاپان نے قبضہ کر لیا تو حبیب اللہ پراچہ نے جاپان میں چائے کا کاروبار شروع کر دیا کہ اسی دوران دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی اور ان کا تعلق چونکہ برٹش انڈیا سے تھا جو اب جاپانیوں کا دشمن بن گیا تھا اس لیے وہ واپس آ گئے اور امرتسر میں سکونت اختیار کر لی جہاں انہوں نے ایک ٹیکسٹائل مل لگا لی۔
انگریز نے انہیں خان بہادر کا خطاب دے دیا۔ تقسیم کے وقت کراچی منتقل ہو گئے، حبیب اللہ پراچہ مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہو گئے جس کے بعد ان کی نظریں قومی اسمبلی پر تھیں۔ نواب آف کالا باغ ان دنوں پاکستان انڈسٹریل کارپوریشن کے چیئرمین تھے۔انہوں نے حبیب اللہ پراچہ کی کوئلے کی کانوں کی لیز کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا تھا جو کالاباغ کے قریب مکڑوال میں تھیں۔حبیب اللہ پراچہ کئی تجارتی پالیسیوں پر حکومت پر تنقید بھی کرتے تھے۔
جب نواب آف کالا باغ کو صدر ایوب نے مغربی پاکستان کا گورنر نامزد کیا تو حبیب اللہ پراچہ کو اندازہ تھا کہ نواب ان کے خلاف کارروائی کریں گے جس پر وہ بھی آستینیں کس کر میدان میں آ گئے۔نواب آف کالا باغ نے بھی عہدہ سنبھالتے ہی حبیب اللہ پراچہ کے خلاف تحقیقات شروع کروا دیں مگر انہیں بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
صدر ایوب حبیب اللہ پراچہ کو قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کروا کر وفاقی وزیر بنوانا چاہتے تھے اس کے لیے انہوں نے کراچی کے ضمنی انتخاب میں حبیب اللہ پراچہ کو کنونشن مسلم لیگ کا ٹکٹ دے دیا۔
مگر نواب آف کالا باغ نے سازش کر کے انہیں ہروا دیا۔ صدر ایوب نے فوری طور پر انٹیلی جنس بیورو اور ملٹری انٹیلی جنس سے رپورٹس مانگیں جنہوں نے بتایا کہ نواب آف کالا باغ نے انہیں ہروایا ہے جس کی ثبوت صدر کو دکھائے گئے۔
صدر ایوب سیخ پا ہو گئے انہوں نے فوری طور پرمحمود اے ہارون اور جام آف لسبیلہ کو اپنی کابینہ سے نکال دیا اور نواب آف کالا باغ کو بھی بلا کر ان سے استعفی ٰ لے لیا، اس طرح نواب آف کالا باغ جو صدر ایوب کے دور میں سیاہ و سفید کے مالک تھےگورنر ہاؤس سے نکالے گئے۔

حکومت نیشنل ڈائیلاگ شروع کرے

 

Related Articles

Back to top button