وزیراعظم شہبازشریف 3 روزہ دورے پر ترکی پہنچ گئے

Prime Minister arrived in Turkey on a three-day visit urdu.

وزیراعظم شہبازشریف 3 روزہ دورے پر ترکی پہنچ گئے ہیں ، ایئر پورٹ پر ترک وزیر دفاع اور اعلیٰ حکام نے ان کا استقبال کیا ،شہباز شریف کو گارڈ آف آرنر پیش کیا گیا۔

شہباز شریف کے وفد میں وزیردفاع خواجہ آصف، وزیراطلاعات مریم اورنگزیب اور دیگر شامل ہیں۔

اپنے دورے کے دوران شہباز شریف ترک تاجروں سے ملاقات کریں گے، جمہوریہ ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے مزار پر جائیں گے اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے 75 سال مکمل ہونے پر ایک یادگاری تختی جاری کریں گے۔

کیا قومی اسمبلی بحال ہوگئی تو زیادہ عرصہ چل پائے گی؟

دورے سے قبل ترک نیوز ایجنسی "انادوکو” کو انٹر ویو میں وزیر اعظم شہبا ز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان مثالی تعلقات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکی گزشتہ 75 برسوں سے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں، دونوں ممالک کے تعلقات سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر ہیں.

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور ترکی گزشتہ 75 برسوں سے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ تاریخی تعلقات مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور لسانی روابط پر مضبوطی سے قائم ہیں اور دونوں جانب سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر ہیں، دونوں ممالک علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر یکساں خیالات رکھتے ہیں اور دوطرفہ، علاقائی اور کثیر الجہتی فورمز پر قریبی تعاون کرتے ہیں، انہوں نے مسئلہ کشمیر پر اصولی حمایت پر ترک قیادت کا شکریہ بھی ادا کیا۔
انہوں نے کہاایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے عوام کے درمیان روابط اور ثقافتی تعلقات بلندی کی جانب گامزن ہیں، پاکستان اب اقتصادی تعاون بڑھانے پر توجہ دے رہا ہے، دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کی موجودہ سطح اب بھی ہمارے تعلقات کی بہترین حالت کا صحیح عکاس نہیں ہے، یہ ایک ایسا پہلو ہے جہاں دونوں ممالک کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اپنے دورے کے دوران میں ترکی کی معروف کاروباری کمپنیوں سے ملاقات کر رہا ہوں تاکہ توانائی، انفرااسٹرکچر، ای کامرس، میونسپل ایگرو بیسڈ انڈسٹری اور آئی ٹی کے شعبوں سمیت مختلف شعبوں میں پاکستان میں موجود بے پناہ مواقع سے استفادہ کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔

ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو باہمی طور پر فائدہ مند تجارت سے بہت کچھ حاصل کرنا ہے، تاہم پاکستان نے 5 اگست 2019 کے بعد بھارت کے ساتھ تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا تھا جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا، ہم ان معاشی فوائد سے بخوبی واقف ہیں جو بھارت کے ساتھ ایک صحت مند تجارتی سرگرمی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں، تاہم کشمیری عوام پر مسلسل ظلم و بربریت، مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوششوں اور بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے حقوق سے مسلسل انکار کے تناظر میں یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ تجارتی محاذ پر پیش رفت ہو سکتی ہے،بھارت کو اگست 2019 کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرکے اور بات چیت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرکے تعلقات کو معمول پر لانے کی ذمہ داری اٹھانا ہوگی.

پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے سوال پر انکا کہنا تھا دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ اور وسیع البنیاد تعلقات ہیں،امریکا کے ساتھ پاکستان کی اپنے تعلقات کو گہرا اور وسیع کرنے کی خواہش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب سے بڑی برآمدی منڈی اور سرمایہ کاری اور آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، ان تعلقات کے کاروباری، تجارتی اور سرمایہ کاری کے پہلوؤں کو مزید وسعت دینے کے بہت زیادہ امکانات ہیں،انہوں نےامریکی کمپنیوں پر بھی زور دیا کہ وہ پاکستان میں خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔

Related Articles

Back to top button