عمران خان الیکشن میں PTI کی شکست کو یقینی کیسے بنا رھے ہیں؟

پنجاب کی نگران حکومت نے منگل کے دن سے صوبہ بھر میں دفعہ 144کے نفاد کا اعلان کردیا ہے۔ فرض کیا کہ آئندہ اتوار کے دن تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار جیل میں قید اپنے قائد کی خواہش پر سڑکوں پر بھاری بھر کم تعداد میں نکل آئے تو مختلف مقامات پر ’پولیس ‘‘ مقابلے‘‘ اور گرفتاریاں یقینی ہیں۔ان کے نتیجے میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے بے شمار پولنگ اسٹیشنوں پر ہمیں شاید وہ کیمپ ہی نظر نہ آئیں جہاں سے تحریک انصاف کے ممکنہ ووٹر اپنے ووٹ کی پرچی حاصل کرنا چاہیں گے ۔ سرکار کو للکارنے کی وجہ سے اگر پی ٹی آئی کے ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں تک لانے والے پارٹی کارکن بھی جیلوں میں چلے گئے تو تحریک انصاف کیلئے یہ دکھانا تقریباََ ناممکن ہوجائے گا کہ اس کے نامزد کئے ’’کھمبے‘‘ بھی جیت رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور کالم نگار نصرت جاوید نے اپنے ایک کالم میں کیا ھے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ روز بھی بانی تحریک انصاف نے اپنی اس خواہش کو دہرایا ہے کہ ان کی جماعت کی جانب سے نامزد امیدوار آنے والے اتوار کے دن سڑکوں پر نکل آئیں۔ یہ حکم صادر کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو خبردار بھی کیا کہ جو ’’امیدوار‘‘ اپنے حامیوں سمیت سڑکوں پر آنے سے گھبرایا اس کا ٹکٹ ’’منسوخ‘‘ کردیا جائے گا۔ آئندہ اتوار 28جنوری 2024ء کے دن آئے گی۔ اس کے عین 11دن بعد عام ا نتخاب کے لئے پولنگ کا دن طے ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف کو مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ جیل میں قید اس کے بانی کو فی الوقت شہباز شریف جیسا ’’نرم رویہ‘‘ اختیار کرنا چاہیے جو جولائی 20180 میں انہوں نے نواز شریف کی وطن واپسی کے وقت اپنایا تھا ۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر فروری2024ء کے انتخاب میں حصہ لینے کے خواہشمندوں نے پہلے ہی کافی ’’جی داری‘‘ دکھادی ہے۔ان کی جماعت کو ’’بلا‘‘ بطور انتخابی نشان میسر نہیں۔تحریک انصاف کی جانب سے کھڑا ہر امیدوار’’آزاد‘‘ حیثیت میں مختلف انتخابی نشانوں کیساتھ میدان میں ہے۔پولنگ کے روز اسے اپنے ممکنہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے اور ’’ووٹ کی پرچی‘‘ دینے والے کیمپ لگانے میں بہت دِقت کا سامنا ہوگا۔پولنگ اسٹیشن پر پہنچا ووٹر کسی اور جماعت کے کیمپ سے بھی ایسی پرچی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جس جماعت کے کیمپ سے اس نے ’’پرچی‘‘ حاصل کی ہوتی ہے وہ اس کی حمایت میں بیلٹ پیپرمل جانے کے بعد ٹھپہ نہیں لگاتا۔ کسی بھی جماعت کو اپنے ووٹروں کو ان کے لئے مختص پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچانے کے لئے پولنگ والے دن کم ازکم 500سے 1000کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اپنے قائد کے حکم پر اگر پی ٹی آئی کا امیدوار اتوار کے روز حامیوں سمیت سڑکوں پر نکل آئے تو کئی مقامات پر ’’پلس مقابلے‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔ان کے نتیجے میں کئی حلقوں میں تحریک انصاف کے امیدوار اپنے متحرک حامیوں سمیت گرفتار ہوجانے کے باعث 8 فروری کے انتخاب کے لئے درکار تیاری کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔

نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ جولائی 2018ء میں نواز شریف اپنی ا ہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر مریم نواز صاحبہ سمیت لندن سے لاہور واپس آئے۔ ان کی آمد سے قبل ہی احتساب عدالت باپ بیٹی کو بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت طویل سزائیں سناچکی تھی۔ مسلم لیگ (نون) کے سادہ لوح حامی اس گماں میں مبتلا رہے کہ اگر نواز شریف کے ’’تاریخی استقبال‘‘کے لئے لاہور ایئرپورٹ پر لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوگیا تو شاید حکومت باپ بیٹی کو جہاز سے اترتے ہی گرفتار کرنے کی ہمت سے محروم ہوجائے گی۔ یوں جو ’’وقفہ‘‘ میسر ہوگا اس کے دوران غالباََ ضمانتوں کا بندوبست بھی ہوجائے گا۔ شہباز شریف کی قیادت میں لیکن عوام کی متاثر کن تعداد لاہور ایئرپورٹ تک پہنچ نہیں پائی۔ باپ بیٹی کو جہاز سے اترتے ہی گرفتا ر کرنے کے بعد ایک اور جہاز میں منتقل کرکے راولپنڈی پہنچادیا گیا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ کئی سادہ لوح افراد شہباز شریف کو کوسنے لگے جن کو شبہ تھا کہ وہ ریاست کے دائمی اداروں سے طویل المدت بنیادوں پر ’’بنائے رکھنے‘‘ کی عادت کی وجہ سے ’’جان بوجھ کر‘‘ اپنے بھائی کی مدد کے لئے جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے ’’اچھے دنوں‘‘ کے منتظر رہے۔ تقریباََ ایک برس گزرنے کے بعد مسلم لیگ (نون) کے انتخابی سیاست سے نسلوں سے آشنا ایک رہ نما کی بدولت پتہ چلا کہ فقط شہباز شریف ہی نہیں نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے بیشتر رہ نما بھی نواز شریف کی آمد کے دن حکومت سے ’’پنگا‘ ‘ لینے کو تیار نہیں تھے۔ان کی خاطر خواہ تعداد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے میدان میں اترچکی تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پولنگ سے چند ہی دن قبل وہ اپنے حامیوں سمیت گرفتار ہوجائیں۔ یوں ہوجاتا تو پولنگ والے دن انہیں انتخابی عمل پر نگاہ رکھنے کے لئے پولنگ ایجنٹس ہی نہ مل پاتے۔ ان کے مخالفین کو تقریباََ واک اوور مل جاتا۔ نواز شریف کی مریم نواز صاحبہ سمیت گرفتاری نے تاہم انہیں ’’ہمدردی کا ووٹ‘‘ بھی دلوادیا۔ بالآخر مسلم لیگ (نون) قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی صورت پہنچ گئی۔ شہبازشریف قائد حزب اختلاف کی نشست سنبھالنے کے حقدار ہوئے اور بتدریج شہباز شریف ہی اپریل 2022ء میں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کے بعد 16مہینوں تک ہمارے وزیر اعظم رہے۔ تحریک انصاف کو بھی آنے والے الیکشن میں کچھ کر دکھانا ھے تو اپنے اثاثے آٹھ فروری تک سنبھال کر رکھنے ہوں گے

Related Articles

Back to top button