عدلیہ کے وقار پر حرف آیا تو عوام اعتماد کھو بیٹھیں گے

عدالت اعظمیٰ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حفاظ کرام کو میڈیکل داخلے میں اضافی 20 نمبر دینے سے متعلق از خود نوٹس کے کیس میں اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عدلیہ کے جواز، وقار اور اعتبار پر حرف آیا تو عدلیہ اور پاکستان کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا کیونکہ اس کے بغیر عوام عدلیہ پر اپنا اعتماد کھو بیٹھیں گے۔

حافظ قرآن کو میڈیکل داخلہ میں اضافی نمبر دینے کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا اپنے فیصلے کے خلاف لارجر بینچ کی کارروائی پر اعتراض تفصیلی نوٹ کی شکل میں جاری کردیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عشرت علی نے 4اپریل کو خود کو غلط طور پر رجسٹرار ظاہرکیا، عشرت علی کو 3اپریل 2023 کو نوٹیفکیشن کے ذریعے وفاقی حکومت نے واپس بلایا لیکن انہوں نے وفاقی حکومت کے حکم کی تعمیل سے انکار کیا۔

انہوں نے نوٹ میں لکھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین سپریم کورٹ کو وجود میں لاتا ہے اور یہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ہے، 29 مارچ 2023 کے حکمنامے نے آئینی اور قانونی حیثیت واضح کی تھی اور یہ کہ چیف جسٹس اپنے لیے یکطرفہ طور پر سپریم کورٹ کے تمام اختیارات حاصل نہیں کر سکتے۔

اس موقع پر مذکورہ حکمنامے کے فقرہ نمبر 27 اور 28 پیش کیے گئے جہاں فقرہ 27 میں کہا گیا تھا کہ ’چیف جسٹس اپنی دانش کو آئین کی حکمت کی جگہ نہیں دے سکتے جس نے ان امور کو طے کرنے کے لیے انہیں یکطرفہ اور اپنی مرضی کا اختیار نہیں دیا، چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے تمام ججوں کی جانب سے اجتماعی طور پر تعین کا کام کوئی فرد اپنے طور پر نہیں کر سکتا خواہ وہ فرد چیف جسٹس ہی کیوں نہ ہوں۔

اس سلسلے میں فقرہ نمبر 28 میں کہا گیا کہ شہریوں کے مفاد میں بہتر ہو گا کہ اس مقدمے اور ایسے تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کی جائے جن کا نوٹس آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت لیا گیا ہے جب تک مذکورہ بالا امور کو منضبط کرنے کے لیے آئین کی دفعہ 191 کے مطابق ضروری قواعد نہ بنائے جائیں۔

اپنے نوٹ میں سپریم کورٹ کے کے اختیار سماعت کے حوالے سے لکھا کہ آئین نے طے کیا ہے کہ کسی عدالت کو کوئی اختیار سماعت حاصل نہیں ہو گا، سوائے اس کے جو اسے آئین، یا کسی قانون کی رو سے یا اس کے تحت دیا گیا ہو، آئین نے چیف جسٹس تو درکنا سپریم کورٹ کو بھی غیرمحدود اختیار سماعت عطا نہیں کیا۔

لارجر بینچ اور حکمنامے کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ آئین سپریم کورٹ کے بینچ اور یا ججوں کو یہ اختیار سماعت نہیں دیتا کہ وہ سپریم کورٹ کے کسی حکم کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں، اس لیے مقدمہ نمبر 4 کی سماعت کے لیے نام نہاد لارجر بینچ کی تشکیل غلط تھی، لارجر بینچ کو آئینی عدالت کی حیثیت حاصل نہیں تھی اور یہ کوئی حکمنامہ جاری نہیں کر سکتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 4اپریل 2023 کا حکمنامہ سپریم کورٹ کا حکمنامہ نہیں کہلا سکتا، اس کا کوئی قانونی اور آئینی اثر نہیں ہے، قانونی طور پر یہ بات غلط ہو گی کہ اسے حکمنامہ کہا جائے اس لیے اس کو 4اپریل کا نوٹ کہا جائے گا۔انہوں نے مقدمے میں بے ضابطگیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فہرست اسی دن جاری کی گئی اور ایسا صرف اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی بہت ہی غیرمعمولی ایمرجنسی ہو لیکن مومودھہ مقدمے میں ایسی کوئی ایمرجنسی نہیں تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ چھ ججوں کو عجلت میں جمع کیا گیا اور بینچ کی سربراہی کرنے والے فاضل جج اور ان کے بعد سینئر ترین جج نے اکٹھا ہونے کے چند منٹوں میں ہی معاملہ نمٹا دیا، فوری طور پر اسی دن چار صفحات پر مشتمل نوٹ جاری کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر معاملے کو عام طریقے سے عام ضابطے کے مطابق مقرر کیا گیا ہوتا، مناسب نوٹس دیا گیا ہوتا اور اس پر مناسب غور کیا گیا ہوتا تو چار فاضل جج جونیئر ججوں کو شاید احساس ہو جاتا کہ ان کے سینئر جو کچھ کر رہے تھے وہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں تھا۔

4 اپریل کے نوٹ کی بنا پر استدلال کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ یہ نوٹ پاکستان کے چیف جسٹس کو ماسٹر آف رولز کا لقب دیتا ہے کو ایسی اصطلاح ہے جس کا وجود آئین، کسی قانون، حتیٰ کہ سپریم کورٹ کےقواعد 1980 میں نہیں پایا جاتا، اس مفروضے پر چیف جسٹس ’ماسٹر آف رولز‘ ہے اور اس کے پاس اختیار ہے کہ اپنی مرضی پر عمل کرے۔

انہوں نے لکھا کہ یہ مفروضہ وضاحت اور صراحت کے ساتھ یہ اصول طے کرتا ہے کہ چیف جسٹس اس عدالت کا ازخودنوٹس کا اختیار سماعت مکمل طور پر اور تن تنہا استعمال کر سکتے ہیں، بہرحال مذخورہ استدلال کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے، مذکورہ قانونی ضابطہ کسی قانون کے ذریعے طے نہیں کیا گیا بالخصوص جبکہ یہ آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے جو چیف جسٹس کو ایسے اختیارات نہیں دیتا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ جج آئین کے دستور کو برقرار رکھنے، اس کا تحفظ اور دفاع کرنے کا حلف بھی اٹھاتے ہیں، آئین عدالتوں کو اختیار سماعت بھی دیتا ہے اور مقدمات کے فیصلوں کے لیے بااختیار بھی کرتا ہے، اس لیے اگر غیرموجود اختیار سماعت استعمال کیا جائے تو اس سے آئین کے مطابق عمل کرنے کے حلف کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس سلسلے میں اسلامی احکامات کی بھی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس قابل احترام ہیں لیکن وہ ماسٹر نہیں ہیں، ایسی غلامی اسلام کے لیے اجنبی ہے اور آئین نے بھی طے کیا ہے کہ تمام قوانین کو ریاست کے مذہب اسلام کے احکام کے ہم آہنگ بنایا جائے گا۔

انہوں نے لکھا کہ اگر عدلیہ کے جواز، وقار اور اعتبار پر حرف آیا تو عدلیہ اور پاکستان کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا کیونکہ اس کے بغیر عوام عدلیہ پر اپنا اعتماد کھو بیٹھیں گے، ایسا کرنے کا سب سے یقینی راستہ یہ ہے کہ مقدمات کے فیصلے آئین کے مطابق نہ کیے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سب سے پہلے اس وقت برباد کیا گیا جب ایک بیورو کریٹ گورنر جنرل نے آئین ساز اسمبلی غیر آئینی طریقے سے برطرف کردی اور سندھ چیف کورٹ کا متفقہ فیصلہ وفاقی عدالت نے منسوخ کردیا، وفاقی عدالت کے فیصلے نے مستقبل کے آمروں کو سویلین حکومتیں برطرف کرنے کے قابل بنایا اور افسوس ہے کہ ایک سے زائد مرتبہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں نے آمروں کی سہولت کاری کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اختتامی نوٹ میں نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا کہ چونکہ نہ تو آئین نے نہ ہی کسی اور قانون نے کسی عدالت میں چھ جلیل القدر ججوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اختیار دیں اس لیے مقدمہ نمبر چار میں سپریم کورٹ کے 29مارچ 2023 کے حکمنامے کو چار اپریل کا نوٹ منسوخ نہیں کر سکتا اور متکبرانہ آمریت کی دھند میں لپٹے کسی کمرہ عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین کو برطرف نہیں کر سکتے۔

واضح رہے کہ 30 مارچ کو سپریم کورٹ نے میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر اضافی نمبر دینے سے متعلق جسٹس قاضی عیسیٰ کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین اور رولز چیف جسٹس کو اسپیشل بینچ تشکیل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔

مزید کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، سوموٹو مقدمات مقرر کرنے اور بینچز کی تشکیل کے لیے رولز موجود نہیں۔

اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس اور آئینی اہمیت کے حامل مقدمات پر سماعت مؤخر کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ رولز بنائے جانے تک 184 (3) کے تمام کیسز کو روک دینا چاہیے۔

بعد ازاں، 31 مارچ کو سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کا چیف جسٹس کے از خود نوٹس اور بینچ کی تشکیل کے اختیارات سے متعلق فیصلہ مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 3 رکنی بینچ کا فیصلہ صحافیوں سے متعلق 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے منافی ہے۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے جاری سرکلر میں کہا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کے فیصلے میں آرٹیکل 184 (3) سے متعلق آبزرویشن ازخود نوٹس کے زمرے میں نہیں آتی۔

سرکلر میں مزید کہا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان نے جو فیصلہ دیا وہ 3 رکنی بینچ کا فیصلہ ہے جبکہ سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ پہلے ہی اس معاملے کو طے کر چکا ہے کہ ازخود نوٹس کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہی استعمال کر سکتے ہیں۔اس کے دو روز بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی کو خط لکھا کر فوری طور پر عہدے سے دستبردار ہونے کا کہا تھا۔

عدالتی حکم نامہ کی تنسیخ کا سرکلر جاری کرنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے خط میں کہا تھا کہ بطور رجسٹرار سپریم کورٹ کورٹ آپ کے پاس عدالتی حکم کے خلاف سرکلر جاری کرنے کا اختیار نہیں تھا، چیف جسٹس سپریم کورٹ انتظامی نوعیت کے احکامات جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔

تاہم سپریم کورٹ نے 4اپریل کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کے چیف جسٹس کے از خود نوٹس اور بینچ کی تشکیل کے اختیارات سے متعلق فیصلے پر لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے از خود نوٹس کو پانچ منٹ کے اندر نمٹاتے ہوئے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور ازخود نوٹس غیر مؤثر ہونے پر نمٹا دیا جاتا ہے۔

صدر نے سپریم کورٹ سے متعلق نطرثانی بل پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا

Related Articles

Back to top button